ائمہ عموماً عالم تو کیا ہوتے، حافظ قرآن بھی نہ تھے ، بدعات ورسومات کا دور دورہ ۔ تبلیغی جماعت کاکام کسی قدر شروع ہوچکاتھا ، خاکی شاہ کی مسجد کی منتظمہ کمیٹی ، تبلیغی جماعت کے ساتھ مربوط تھی ، لیکن بریلویت کا غلبہ تھا ، جمعہ کے خطبہ کا مطلب یہ تھا کہ پہلا خطبہ اردو میں تقریرکی شکل میں ہوتاتھا ، مجھے یہ بات عجیب سی لگی ، ہمارے یہاں دونوں خطبے عربی میں ہوتے ہیں ، یہاں اصرار تھا کہ پہلا خطبہ اردو میں ہو ، میری طبیعت رکی ، مگر اندازہ ہوا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو فتنہ ہوسکتا ہے، میں نے سوچا کہ عربی میں خطبہ سنت تو ضرور ہے ، لیکن فرض نہیں ہے، اور خطبہ جتنا فرض ہے وہ تقریر کے پہلے خطبہ پڑھنے سے ادا ہوجائے گا ، اس لئے مسلمانوں میں انتشار سے بچنے کے لئے اگر اردو میں تقریر کردی جائے تو چنداں مضائقہ نہیں ۔ مجھے لوگوں نے بتایا کہ اس سے پہلے یہاں میسور میں ایک فاضل دیوبند اور اعلیٰ درجے کے خطیب مولانا عبد الرحیم صاحب بستوی ( حال استاد دار العلوم دیوبند ) اسی طرح خطبہ دیا کرتے تھے ۔ میں نے مصلحتاً اور کرہاً حامی بھرلی ، یہاں خطبہ کے لئے ہاتھ میں عصا لینے کی بھی شرط تھی ، اور اسی غرض سے ایک خاص قسم کا عصا ہر مسجد جامع میں رکھا رہتا تھا، خطیب اسے بوقت خطبہ ہاتھ میں رکھتا تھا ۔ نماز کے لئے عمامہ کی بھی شرط تھی ، امام کے لئے صافہ باندھنا ضروری تھا ، خواہ رومال ہی کو بطرز عمامہ لپیٹ لے۔
مجھے ان بے جا شرطوں سے وحشت ہوئی ، مگر مجھے کام کرنا تھا ، میں نے ان غیرضروری رسوم کو قبول کرلیا کہ جب کام شروع ہوگا تو آہستہ آہستہ ان کاالتزام ساقط ہوجائے گا۔
لوگوں نے ایک اور عجیب بات سنائی ، جو میں کسی طرح قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا ، مگر لوگوں کے جبر واصرار اور مصلحت اندیشی کے باعث قبول کرنی پڑی ، وہ یہ کہ ہر نماز کے بعد سنتوں سے فارغ ہوکر تمام مقتدی بیٹھے رہتے ہیں ، امام اس وقت بلند آواز سے الفاتحۃ پکارتا ہے،پھر سب لوگ سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں ، اس کے بعد امام کچھ اور دعائیں