بآواز بلند کرتا ہے ، پھر لوگ اٹھتے ہیں ، یاد آتا ہے کہ لوگ اس کے بعد مصافحہ بھی کرتے ہیں ۔
یہ سب باتیں مجھ ناواقف کو پہلی ہی ملاقات میں منتظمین نے بتادیں ، اور یہ بھی سنادیا کہ اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو آپ کے رہنے اور کام کرنے کی گنجائش نہ ہوگی۔
چنانچہ یہ ساری پابندیاں مجھے پہلے ہی روز جمعہ کی نماز پڑھانے میں برتنی پڑیں ۔ تقریر کرنے کا ملکہ تو تھا ہی ، پہلا خطبہ ہاتھ میں عصا لے کر کسی خاص موضوع پر دیا ، دوسرا خطبہ عربی میں ہوا ۔ نماز کے بعد دعا بالجہر کی ، سنتوں سے فراغت کے بعد دعا ئے الفاتحہ ہوئی، اس کے بعد مصافحہ شروع ہوا ، ہر مصلّی نے فرداً فرداً مصافحہ کیا ، اور اس طرح سے کیا کہ ہر شخص اپنے انگوٹھے سے میرے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو زور سے دباتا،آخر آخر میں اس میں شدید درد ہوگیا ۔ میں نے عبد الرحیم سے پوچھا کہ یہ کیا حرکت تھی ، لوگوں نے میرے انگوٹھے کو تقریباً توڑ ہی دیا ، کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں ، یہاں یہ بات معروف ہے کہ حضرت خضر ں کے انگوٹھے میں ہڈی نہیں ہے ، یہ دبا دبا کر دیکھتے ہیں کہ یہ صاحب خضر ں تو نہیں ؟ میں اس جاہلانہ عقیدے اور حرکت پر متعجب ہوا۔
بہر حال پہلی تقریر اور پہلی نماز ان کے معیار پر کامیاب اتری ، وہیں سے نیک نامی اور شہرت کا آغاز ہوا ۔ لوگوں کو یہ اندازہ ہوا کہ میں تقریر اچھی کرلیتا ہوں ، اس وقت میسور شہر میں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے اکیلا مولوی میں ہی تھا ۔ بڑی عزت اور آؤبھگت ہوئی ، لوگوں نے خطبۂ جمعہ کے علاوہ میری تقریروں کے پروگرام رکھنے شروع کئے ، شہر کے مختلف حلقوں میں کچھ اکھاڑے تھے ، جہاں کشتی ہوتی ، فنون سپہ گری ، بنوٹ وغیرہ کی مشق ہوتی ، ان جگہوں کو وہاں کے عرف عام میں ’’ تعلیم ‘‘ کہاجاتا ۔ انھیں ’’ تعلیموں ‘‘ میں پروگرام ہوتے ، میں جاتا اور جتنی اﷲ توفیق دیتا وعظ کہہ کر چلا آتا ، یہ پروگرام روزانہ ہوتے ، بلکہ بعض دنوں میں کئی کئی جگہ ہوتے ۔ اس وقت طبیعت کی کمان چڑھی ہوئی تھی ، تبلیغ دین کا جوش بہت تھا ، لوگ پروگرام بناتے ، آکر لے جاتے ، میں نہ سستی کرتا اور نہ معذرت کرتا اور نہ