آپ یوپی سے آرہے ہیں ، میں نے ہاں کہی ، وہ خوش ہوکر کہنے لگے کہ آپ کا انتظار ہے ، چلئے ، انھوں نے میرا بیگ لے لیا اور ایک طرف چلنے لگے، تھوڑی دورچل کر ایک پختہ قبر کے سامنے پہونچے اور بتایا کہ یہ خاکی شاہ کا مزار ہے ،اور یہ ان کی مسجدہے ۔ ایک اوسط درجہ کی مسجد! پورب اور شمال میں خاصا بڑا میدان نما صحن ، مشرق وجنوب کے گوشہ میں خاکی شاہ کی پختہ قبر ، جس کے اوپر ایک کھلی ہوئی مسقف عمارت! شمال میں استنجاخانے وغیرہ ، مسجد سے متصل جنوب میں ا مام کے لئے ایک بڑا سا حجرہ ! رہبر نے اسی حجرے میں میرا سامان رکھا، اور کہا کہ چلئے آپ بھوکے ہوں گے ، میں آپ کو ناشتہ کراؤں ، اور میں واقعی بھوکا تھا ، کیونکہ سفر میں کھانے پینے کی بالکل عادت نہ تھی ، وہ ایک ہوٹل میں لے گئے ، انھوں نے اپنا نام عبد الرحیم بتایا ، انھوں نے ہوٹل میں بیٹھایا ، میں ہوٹل سے شمال میں بھی مانوس نہ تھا ، جنوب میں کیا مانوس ہوتا؟ انھوں نے میز پر کچھ منگایا ، میں اسے دیکھ کر حیران تھا کہ یہ کیا چیز ہے ؟ یہ اٹلی ہے، چاول کے آٹے سے بنتی ہے ، اسے انھوں نے توڑا ، اور ایک خاص قسم کی ترکاری کے سالن میں ملایا۔ مجھے اچھی تو نہ لگی، مگر بھوک نے ایک خاصی حد تک اسے خوشگوار بنائے رکھا ، چائے سے فارغ ہونے کے بعد میں پھر اسی حجرے میں آگیا۔ وہ مسجد کے ارباب انتظام کو میری آمد کی اطلاع دینے چلے گئے اور میں بستر پر دراز ہوگیا، اور تھوڑی دیر میں نیند کی آغوش میں بے خبر ہوگیا۔
وہ جمعہ کا دن تھا ، گیارہ بجے آنکھ کھلی تو مسجد کے سکریٹری کے۔نذیر احمد صاحب اور بعض دوسرے اراکین موجود تھے ، سب سے ملاقات ہوئی ، انھوں نے بتایا کہ ابھی فی الحال آپ کو اس مسجد میں ا مامت کرنی ہے ، جمعہ کا خطبہ دینا ہے ، اور اس کے ساتھ ایک مدرسہ کے لئے فضا ہموار کرنی ہے ۔ دوسال پہلے یہاں حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے دست مبارک سے مدرسہ صدیقیہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ، شہر کا ماحول مدرسہ کے حق میں زیادہ سازگار نہ تھا ، اتنا بڑا شہر کسی عالم دین سے بالکل خالی تھا ، مساجد کے