اس وقت غالب کے یہ اشعار بھی یاد آئے ؎
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے درودیوار سا اک گھربنایا چاہئے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑئیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
ٹرین سترہ گھنٹے چلتی رہی، علی الصباح وہ میسور کے اسٹیشن پر رکی ، تو ایک شاداب اور پُربہار شہر کی فضا نے مجھ پر گویا سحر کردیا ، اتنی لطیف اور خوشگوار ہوا چل رہی تھی کہ دل کی کلی کھلی جارہی تھی ، ایک آٹو رکشہ پر بیٹھا ، اسے بتایا کہ چوک پر لے چلو ، اسٹیشن سے چوک تک خاصا فاصلہ تھا ۔آٹو رکشہ پُرسکون سڑک پر دوڑرہاتھا اور میں دیکھ رہاتھا کہ کچھ مرد اور کچھ عورتیں اپنے سروں پر پھولوں سے بھرے ہوئے ٹوکرے لادے ہوئے سڑک کے کنارے خراماں خراماں چل رہے ہیں ، پھولوں کا حسن نگاہوں کو اور ان کی خوشبو فضاؤں کو نظارۂ جنت بنارہی ہے ، موسم اتنا سہانا کہ ہمارے یہاں کا موسم بہار بھی اس سے مات کھائے ، طبیعت جو ایک عرصہ سے اداسی، مایوسی اور حسرت وحرماں کی خوگر بنی ہوئی تھی ، یکایک انگڑائیاں لینی لگی ، میں سوچ رہاتھا کہ اگر میری طبیعت موزوں ہوتی اور شعر گوئی کا ذوق ہوتا تو اس وقت ایک مرصع بہاریہ نظم تیار ہوجاتی ، دل وجگر میں ایک اہتزازی کیفیت کی مستی تھی ، حسن وخوشبو سے لبریز یہ شہر مجھے ایسا لگ رہاتھا جیسے میں خواب دیکھ رہا ہوں ۔
آٹو رکشہ رکا ، میں اترا، سامنے ایک جوان ،باریش مرد دیندار پر نظر پڑی ، میں آگے بڑھا ، وہ بھی میری طرف لپکے ، میں نے سلام کیا ، مصافحہ کیا، میں نے عرض کیا کہ میں یہاں اجنبی ہوں ،آپ مجھے بتائیں کہ ’’خاکی شاہ پہلوان ‘‘ کی مسجد کہاں ہے؟ انھوں نے کہا