آغوش میں زمین کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہاہو
پانی کو چھورہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سرخی لئے سنہری ہر پھول کی قباہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھادے
جب آسماں پہ ہرسو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی موذن
میں اس کا ہمنوا ہوں وہ میری ہمنواہو
کانوں پہ ہو نہ میرے دیر وحرم کااحساں
روزن ہی جھونپڑے کا مجھ کو سحر نماہو
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے
رونا میرا وضو ہو، نالہ مری دعا ہو
اس خامشی میں جائیں ، اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو
ہردردمند دل کو رونا میرا رلادے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انھیں جگادے
( کلیات اقبال ص۴۶؍۴۷بعنوان’’ ایک آرزو‘‘)