ایک خوشگوار سناٹے کے علاوہ اور کوئی چیز حائل نہ ہوتی۔ اقبال ؔمرحوم کی نظم یہ ہے۔ ؎
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامُشی پر ،یہ آروز ہے میری
دامن میں کوہ کے ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں ،عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیاہو
لذت سرود کی ہو، چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہاہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نماہو
ہوہاتھ کا سرہانا سبزہ کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت، خلوت میں وہ مزاہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے بھرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہاہو
ہو دل فریب ایسا کہسار کانظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو