والے کے قدموں کے نیچے پامال ہونا چاہئے ، فطرۃً سب سے پہلے مشائخ دیوبند کی طرف نگاہ گئی ، مگر دیوبند کے حادثہ نے رسواسربازار ،اس طرح کررکھا تھا کہ کسی کے پاس حاضری دینے سے طبیعت لرزتی تھی۔
انھیں دنوں میرے قریبی گاؤں خیرآباد میں ایک روز کا تبلیغی اجتماع تھا ، میں چونکہ ابھی تازہ تازہ چلہ سے واپس آیاتھا ، اس میں شرکت کے لئے گیا ، تبلیغی اکابر نے ہاتھوں ہاتھ لیا ، کافی عزت افزائی کی ، میں خوش ہوا کہ شاید پچھلا دھبہ اب مٹ جائے ، مشورہ میں کسی نماز کے بعد میرا بیان طے ہوا۔ نماز کے بعد میں ارادہ کررہاتھا کہ اٹھ کر بیان شروع کروں ، تب تک دیکھا کہ ایک ذرا پرانے تبلیغی مولوی تیزی سے اٹھے اور میرے کھڑے ہونے سے پہلے وہ بیان کی جگہ پہونچ کر تقریر وافادہ میں مشغول ہوگئے ، مجھے دھکا لگا، اپنی گنہگاری اور ناکارگی کااحساس جاگا، پچھلا نامۂ اعمال نگاہوں کے سامنے پھر گیا ، میں بوجھل قدموں سے اٹھا ، اور مسجد کے جنوبی برآمدے کی طرف آگیا ، وہاں دیکھا کہ میرے بزرگ حضرت شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کے خلیفہ ، انجان شہید کے رہنے والے حضرت مولانا عبدالحی صاحب تشریف فرماہیں ، انھیں دیکھ کر مجھے قدرے سکون ہوا، میں ان کی خدمت میں جاکر بیٹھ گیا، انھوں نے بڑے التفات اور بڑی محبت سے پرسش احوال کی ،میں ان سے گفتگو کرنے لگا ، گفتگو کا سلسلہ درد دل اور اضطراب وبے چینی تک پہونچا ، ان کے سوال پر میں نے تبلیغ میں ایک چلہ لگانے کا ذکر کیا ، انھوں نے مزید دلچسپی لی اور پوچھا کہ جماعت میں دل کو سکون ہوا، میں نے جوبات تھی عرض کردی ، کہ مجھے اطمینان نہیں ہوا، بلکہ بے چینی میں کچھ اضافہ ہی ہوا۔
ابھی میں نے اتنا کہا تھا کہ ایک تند مزاج نوجوان نے جنھیں میں پہلے سے جانتا تھا ، اور انھیں جماعت سے بحد غلو شغف تھا ، کڑک کر کہا کہ مولوی صاحب آپ کو کبھی اطمینان نصیب نہ ہوگا ، آپ ہی وہ ہیں جنھوں نے ایسا ایسا کام کیا ہے ،اور حوالہ دیوبند کے حادثے کا