پہونچا، میرے بچپن میں مئو کے ایک بزرگ صوفی عبدالرؤف صاحب علیہ الرحمہ تشریف لایا کرتے تھے، میرے دادا اورمیرے بڑے والد ان کے ارادت مند تھے،یہ تینوں حضرات کوہنڈہ ضلع اعظم گڑھ کے ایک نقشبندی بزرگ حضرت حافظ حامدحسن صاحب علیہ الرحمہ کے مرید تھے، حافظ صاحب کے انتقال کے بعدحضرت صوفی صاحب سے ہمارے داداوغیرہ کا رابطہ رہا میرے بچپن میں ان کا بھی انتقال ہوگیا،ان کی طرف سے جہاناگنج کے ایک بزرگ میانجی عبداللہ صاحب علیہ الرحمہ کو اجازت تھی ،میں جب مبارک پور میں پڑھتاتا توحضرت میانجی صاحب کی خدمت میں حاضری دیاکرتاتھا ،میراارادہ تھا کہ فراغت کے بعدان سے بیعت ہوں گا مگروہ بھی بارگاہ رحمت میں بلالئے گئے، اس کے بعد ذہن سے بات نکل گئی دیوبند جب پہونچا،توسہارن پورگیااورحضرت شیخ الحدیث صاحب سہارنپور ی کے یہاں بیعت عام کی ایک مجلس میں بیٹھا مگر بیعت نہ ہوا،پھردیوبند کا حادثہ پیش آگیا، اس سانحے میں حضرت شیخ الحدیث صاحب گناہگار طلبہ پر شدیدناراض ہوئے، اور اس شدت کی ناراضگی ظاہر فرمائی کہ ان کی طرف رجوع کی ہمت باقی نہ رہی ۔دورۂ حدیث میں ہم لوگ تھے ، حضرت مولانا افضال الحق صاحب مدظلہ سے اس موضوع پرایک ایک مرتبہ گفتگوہورہی تھی، انھوں نے بھوپال کے بزرگ حضرت مولانا شاہ محمدیعقوب علیہ الرحمہ کانام لیا، ان کے ملفوظات کا مجموعہ حضرت مولانا علی میاں نے مرتب فرمایاہے ،اسے میں پڑھ چکاتھا، دل میں ایک ہلکا ساخیال پیدا ہوا مگر چندماہ کے بعد ان کے انتقال کی خبر سنی۔
فراغت کے بعد تبلیغی جماعت کے دورہ سے جب واپسی ہوئی اور مطالعہ کا ذوق حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے مکاتیب ، امام غزالی کی کیمیائے سعادت ،اور سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی کی کتاب فتوح الغیب اور اس کی شرح کے دروازے تک لے گیا ، تو طبیعت میں ایک نئی بے چینی کااحساس شروع ہوا ، اسی دور میں ڈاکٹر میر ولی الدین حیدرآبادی کی کتاب ’’ مدارج سلوک ‘‘ ہاتھ آئی ،اسے پڑھ کر دل میں آگ لگی کہ کسی بزرگ، کسی اﷲ