دیا ، میں خاموش ہوگیا ، گنہگار تھا ، گناہ کا اقرار تھا ، بجز سکوت کے اور کیا کرسکتاتھا ، لیکن مولانا عبد الحی صاحب نے اس نوجوان کو ڈانٹا اور سرزنش کی ،اور فرمایا کہ یہاں ہر طرح کا مجمع ہوجائے گا ، چلو تنہائی میں چلیں ، مغرب بعد کا وقت تھا ، مجھے لے کر مولانا مدرسہ منبع العلوم کی چھت پر چلے گئے ، مدرسہ منبع العلوم پہلے جامع مسجد ہی کے حلقے میں تھا ، بعد میں بازار کے اندر اس کی مستقل عمارت بنی ، پھر عشاء کی اذان تک گفتگو فرماتے رہے ، میں نے اپنے اضطراب کا ذکر کیا ، انھوں نے تسلی دی ، انھوں نے اس روز محبت الٰہی پر ایک مبسوط تقریر کی ، جس کااثر میرے قلب پر یہ ہوا کہ اﷲ کی محبت محسوس ہونے لگی ، مولانا کے ساتھ یہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی صحبت بہت مفید اور موثر ہوئی۔
مگر مجھے ہمت نہ ہوئی کہ ان سے بیعت کی درخواست کرتا ، میری گنہگاری نے مجھے میرے نزدیک اتنا ذلیل کردیا تھا کہ میں کسی آستانے کے لائق نہ تھا ، پھر میں نے استخارہ شروع کیا ، استخارے کے دوران اپنے گردوپیش میں دیکھا تومئو میں ایک بزرگ حضرت مولانا منیرالدین صاحب نوراللہ مرقدہٗ امام جامع مسجد مئو پرنظرپڑی، ان سے ہمارے گاؤں کے کئی لوگ وابستہ تھے اورسب نیک لوگ تھے، میں بھی ان کی خدمت میں اپنے گاؤں کے بعض بزرگوں کے ساتھ گیا، انھوں نے بہت شفقت فرمائی، میں نے ان کے سامنے اپنی گناہگاری کاساراقصہ دہرایا، انھوں نے سننے کے بعد بھی اپنی شفقت ومحبت کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی، بلکہ اب کچھ اورہی شفقت بڑھادی، باربار آنے جانے کے بعد میں نے ان سے بیعت کی درخواست کی انھوں نے قبول فرمائی اوربیعت کرلیا۔
ان سے بیعت کے بعد میری یکسوئی اورخلوت گزینی میں کچھ اوراضافہ ہوگیا، نماز وتلاوت میں خاصی حلاوت بڑھ گئی اس کے ساتھ ایک کام کا اورغلبہ ہوا، وہ یہ کہ میں نے روزوں کاسلسلہ شروع کردیا، کبھی مسلسل کبھی ایک روزناغہ کرکے روزہ رکھنے لگا ،حضرت کے بتائے ہوئے وظائف پڑھتارہا ،حضرت مولانا کے فیض صحبت کا یہ اثر ہواکہ دل کو جوایک