تھے ، جن کو موقع ملا وہ آبادیوں میں گھس آئے ، سانپوں کو دیکھا گیا کہ وہ درختوں پر چڑھ گئے ، کشتیوں کے ملاح اہتمام کرتے تھے کہ کشتی کسی درخت کے پاس سے نہ گزرے ،ورنہ درخت پر چڑھے ہوئے سانپ چھلانگ لگاکر کشتی پر آجاتے اور سواریوں میں افراتفری مچ جاتی ،اور کشتی کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا، بعض اوقات خبر آتی کہ فلاں جگہ کشتی ڈوب گئی کیونکہ سانپ کود گیا، اور افراتفری میں کشتی سنبھل نہ سکی اور کروٹ لے کر غرقاب ہوگئی۔
میں معمول کے مطابق غیر رہائشی مکان میں رات گزارتاتھا ، ایک لمبا کمرہ تھا ، جس میں مغربی سمت دیوار سے لگاکر جلاون کی لکڑیوں کا ڈھیر تھا ، مشرقی سمت میں مَیں ٹاٹ کا حجرہ بناکر رہتاتھا، درمیان میں دو دروازے قریب قریب بنے ہوئے تھے ، اور دونوں دروازوں کے درمیانی حصے میں دوتین ہاتھ کی دیوار فاصلہ بنارہی تھی، گرمی سخت تھی ، میں ایک رات مکان کے آنگن میں سویاتھا ، ڈیڑھ دو بجے آنکھ کھلی ، وضو کرکے مغربی دروازے کے پاس چٹائی بچھاکر نماز کے لئے کھڑا ہوگیا، دروازے کی چوکھٹ کے پاس جلتی ہوئی لالٹین رکھ دی ، اس وقت گاؤں میں بجلی نہیں آئی تھی ، ہلکی ہلکی روشنی آگے لکڑیوں تک جارہی تھی ، میں قدرے آواز سے محوِ تلاوت تھا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ ایک سانپ دروازے کی طرف سے لکڑیوں کی جانب بڑھ رہا ہے ،سانپ خاصا بڑا محسوس ہوا ، میں پڑھتا رہا کہ وہ لکڑیوں کی طرف جارہا ہے ، لیکن میری نگاہ اس پر جمی ہوئی تھی ، پھر دیکھتا ہوں کہ وہ پلٹ کر چٹائی کی طرف آرہا ہے ، اب مجھے تابِ ضبط نہ رہی ، نماز توڑ کرمیں دروازے سے باہر آگیا اور کوئی ڈنڈا تلاش کرنے لگا، کہ اسے ٹھکانے لگاؤں ، ڈنڈا لے کر اندر گیاتو وہ غائب ہوچکاتھا ، میں نے باقی رات آنگن میں گزاری ، فجر کی نماز کے بعد میں نے گھروالوں کو اور اہل تعلق کو اس کی اطلاع کی ، لکڑیاں ہٹاکر سانپ کو تلاش کیا گیا ، مگر کچھ پتہ نہ چلا ۔ مچھلی مارنے کی بنسی میں کَٹْیا کے اندر کبوتر کا ایک انڈا لگاکر رکھ دیا گیا ، دن بھر وہ انڈا پڑارہا ، مغرب کی نماز پڑھ کر آئے تو سانپ انڈے کو نگل چکا تھا اور دھاگا اس کے آدھے طول تک اندر گھس گیاتھا ، اور وہ پھن