کیلومیٹر کا فاصلہ ہوتا ، ضروریاتِ زندگی کی فراہمی اور اس کا انتظام ایک مشکل امر ہوگیا تھا ، گاؤں کی جامع مسجد سیلاب کے حصار میں آگئی تھی ، پنج وقتہ نمازوں کے لئے محلہ کے لوگ مشکل سے پہونچ پاتے تھے ، جمعہ کا دن آیا ، تو اس تک پہونچنے کا مرحلہ سنگین ہوگیا ، راستہ گھٹنوں تک غرقاب تھا ۔ لوگوں پر خوف وہراس کا تسلط تھا ، ہر شخص دوسرے سے پوچھتا تھا کہ مسجد کیونکر پہونچاجائے ، یہ آخری ہفتہ بہت سخت گزررہاتھا ، لوگوں کے قلوب ابل رہے تھے ، میں نے اپنے استاذ امام جامع مسجد حضرت مولانا عبد الستار صاحب کے ایماء پر بعد نماز جمعہ دعاء خوانی کا اعلان کیا ، مسلمان خواہ اسباب کے لحاظ سے کتنا ہی ٹوٹا ہوا ہو، تاہم دعا پر یقین رکھتا ہے ، اس اعلان سے قلوب میں تازگی آئی ، لوگ جمعہ پڑھنے تو جاتے ہی ، لیکن اس علان کے بعد بڑے ذوق وشوق اور یقین وعزم سے مسجد کی جانب چلے ، سب طرف سے لوگ پانی میں ہَل ہَل کر آئے ، قلب مضطر اور چشم گریاں کے ساتھ آئے ، جمعہ کی نماز کے بعد میں نے ایک تقریر کی ، طبیعت بھری ہوئی تھی ، دل شکستہ تھا ، لرزتی زبان اور کانپتے ہوئے ہونٹوں سے الفاظ وکلمات کیا نکل رہے تھے تاثیر وتاثر کے شرارے برس رہے تھے ، بولنے والا بھی کانپ رہاتھا ، سننے والے بھی زیر وزبر ہورہے تھے ، تھوڑی دیر تقریر کے بعد جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھے تو مسجد میں گریہ وزاری کا کہرام مچ گیا، کوئی آنکھ نہ تھی جو کھل کر نہ روئی ہو، قلوب پھٹ رہے تھے ، آوازیں کانپ رہی تھیں ، آدھ پون گھنٹہ وہ سماں رہا، کہ رحمت الٰہی اترتی ہوئی محسوس ہونے لگی ۔دعا کے بعد ہر شخص محسوس کررہا تھا کہ رحمت کی چادر پوری فضا پر تانی جاچکی ہے ، اب سیلاب کو اذن رخصت مل چکا ہے ، چنانچہ عصر کی نماز کے وقت پانی اچھا خاصا اتر چکاتھا ، اور دوسرے دن صبح کو آنکھ کھلی تو جامع مسجد کا راستہ خالی ہوگیا تھا ، سیلاب باندھ کو چھوڑ کر کھسک رہاتھا ، اور دیکھتے ہی دیکھتے سیلاب اتر گیا۔ فالحمدﷲ والمنۃ ﷲ
سیلاب کے دوران میرے ساتھ ایک عجیب قصہ پیش آیا، جس کو ذکرکرنا مناسب سمجھتا ہوں ، پانی تمام میدانوں اور کھیتوں پر چھا چکا تھا ، میدان کے جانوراکثر تو ہلاک ہوگئے