نکال کر پیچھے کی دیوار کا سہارا لے کر لہرارہاتھا ۔ ہمارے محلہ کے ایک بزرگ حاجی محمد وزیر صاحب سانپ مارنے کے بہت ماہر تھے ، ان کے پاس اس کے لئے متعدد ہتھیار تھے ، وہ ایک ہتھیارلے کر آئے ، اور اس کے ٹھیک بیچ میں اسے پیوست کردیا، وہ ہتھیار اس کا سینہ چیرتا ہوا دیوار میں گھس گیا ، تھوڑی دیر وہ تڑپتا تلملاتا رہا ، پھر جھول گیا ، ہمارے چچازاد بھائی محمد افضل مرحوم چاقو لائے اور اس کا جسم چیر کر چربی نکالنے لگے کہ سانپ کا تیل بناؤں گا۔
یہ زہریلا ناگ تھا ، جو اپنے قدوقامت کے لحاظ سے مکمل ہوچکاتھا ، لوگ کہتے تھے کہ اس کا جوڑا بھی کہیں ہوگا ، وہ بھی کبھی ظاہر ہوگا ، میں نے کہیں پڑھ رکھاتھا کہ سَلَامٌ عَلیٰ نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ سات مرتبہ پڑھ کر ہاتھ سے دستک دی جائے تو سانپ رخصت ہوجاتے ہیں ، یہی عمل میں دن میں متعدد بار کرتا رہا ، پھر کوئی سانپ ظاہر نہیں ہوا۔
رمضان کا ماہ مبارک آیا ، میرے ماموں زاد بھائی حافظ عزیز الرحمن صاحب کو تراویح پڑھانی تھی ، اور مجھے ان کے پیچھے قرآن سنناتھا ، گاؤں کے دکھن جانب مسلمان کوئری برادری کا ایک محلہ ہے ، کوئری ہندو بھی ہوتے ہیں ،مگر میرے گاؤں کے کوئری تمامتر مسلمان ہیں ، یہ سبزی ترکاری کی کاشت کرتے ہیں ، ان میں پڑھے لکھے کم تھے ، مسلک کے لحاظ سے بجز ایک گھرکے سب بریلوی تھے ، بریلویوں میں کوئی حافظ نہ تھا ، یہ لوگ ہمارے نانا کے گھرانے سے پرانا تعلق رکھتے تھے ۔ ہمارے استاذ حافظ احمد کریم صاحب علیہ الرحمہ نے حافظ عزیز الرحمن کو متعین کیا کہ وہاں تراویح پڑھائیں ، وہ لوگ بھی تیار ہوگئے ، یہ محلہ ہم لوگوں سے خاصے فاصلہ پر ہے ، درمیان میں ہریجنوں کی ایک بستی ملتی تھی ، مغرب کی نماز کے بعد چار آدمیوں کا قافلہ لالٹین اور لاٹھی لے کر روانہ ہوتاتھا ، میرے بڑے ماموں عبد الحلیم مرحوم ، منجھلے ماموں حاجی عبد المنان مرحوم ، ان کے فرزند حافظ عزیز الرحمن صاحب اور یہ خاکسار! ایک روز تراویح سے فارغ ہوکر ہم لوگ آرہے تھے ، گاؤں کے قریب آکر غیر مسلموں کی ایک گلی میں داخل ہونا چاہ ہی رہے تھے کہ بڑاسا سانپ دکھائی دیا ، داہنی طرف