والے تھے ، مگر انھوں نے بخوشی ذمہ لیا کہ ہم لوگ گھر سے سحری لے کر مسجد میں پہونچایا کریں گے ، چنانچہ ان بچوں نے ازراہِ سعادت مندی ٹھیک وقت پر سحری پہونچانے کا سلسلہ جاری رکھا ، ایسا یاد آتا ہے کہ اس وقت میں ا نھیں کوئی سبق بھی پڑھاتاتھا ۔
اس اعتکاف کی تنہائی میں زیادہ وقت تو تلاوت میں گزرتا، باقی وقت اکسیر ہدایت اور شرح فتوح الغیب کے پڑھنے میں بسر ہوتا ، تراویح کے بعد مسجد میں بالکل سناٹا ہوجاتا ۔ ہلکی سردی تھی ، مسقف حصہ اکہرا تھا ، دروں پر کپڑے کے پردے پڑے ہوئے تھے، مسجد کا کشادہ سا صحن تھا ، میں بے خوف اور مطمئن ہوکر رہتا ، رات کو عموماً ڈیڑھ دو بجے اٹھ جاتا ، مسجد کے شمال میں ٹونس ندی بہتی ہوئی ہے ،جنوب میں میرے رشتہ کے ایک ماموں کا مکان تھا ، جو بریلوی تھے، اس لئے ان سے مناسبت نہ تھی ، پچھم طرف کچھ غیر آباد زمینیں تھیں ، پورب جانب ایک تالاب تھا ، جسے ہمارے عرف میں ’’گڑھی‘‘ کہا جاتا ہے ، یہ مسجد آبادی کی چہل پہل سے الگ تھلگ تھی ، میں رات کو اٹھتا، تو ایک ڈراؤنا سناٹا محسوس ہوتا ، مگر مجھ پر کسی اور ہی حال کا غلبہ تھا ، اٹھتا ، مسجد کے باہر ضروریات سے فارغ ہوتا اور وضو کرکے تہجد کی نماز میں محوتلاوت ہوجاتا ، ایک اﷲ ہوتا ، ایک اس کا غلام ہوتا، باقی سب کچھ معدوم وفنا ہوتا!
ایک روز رات کے ڈیڑھ بجے آنکھ کھلی ، تو باہر صحن میں تلاوت کی آواز محسوس ہوئی ، میں بسترپر بیٹھا سنتا رہا، کوئی شخص نہایت خوش الحانی سے، ہلکی آواز میں تلاوت کررہا تھا، آواز کی نغمگی محسوس ہوئی ، مگر حروف وکلمات کا ادراک نہ ہوتا تھا ، مجھے خیال ہوا کہ ندی کے کنارے سے آواز آرہی ہے ، میں باہر نکلا کہ آواز کچھ صاف معلوم ہو، مگر جونہی باہر نکلا آواز بند ہوگئی ، پھر میں اندر آگیا، پھر آواز آنے لگی ، میں پندرہ بیس منٹ تک آواز کے حسن ترنم سے محظوظ ہوتارہا ، لیکن مجھے خود بھی پڑھنا تھا ، اس لئے باہر نکلا اور آواز بند ہوگئی ، پھر میں وضو کرکے نماز میں مشغول ہوگیا، اور خیال نہ رہا کہ آواز آرہی ہے یا نہیں ؟
٭٭٭٭٭