نمازکے بعد فوراً سوجاتا۔
یہ دستورالعمل اورنظام الاوقات اس وقت تک یکساں اورمتواتر رہا، جب تک حفظ قرآن کی تکمیل نہیں ہوئی تھی۔
اس کی تفصیل کچھ عرض کردوں ،تبلیغی جماعت کے سفر میں مجھے دوفائدے بہت اہم ہوئے،ایک توتکبیر اولیٰ کے ساتھ نمازباجماعت کااہتمام والتزام ہوا،دوسرے تہجدکی پابندی نصیب ہوئی۔ ہماری جماعت میں دوبزرگ تہجد کے بے حد پابند تھے،ایک توامیر جماعت حافظ محمدیوسف صاحب یہ جید حافظ تھے، اورتہجد میں پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے ،دوسرے مظفر نگر کے ایک بزرگ مولوی حافظ اللہ بندہ تھے یہ دیوبند کے فارغ تھے مگر علم کا مشغلہ نہیں تھا، اوربہت سادہ اورمعمولی دیہاتی اندازمیں رہتے تھے لیکن حفظ قرآن مجید مین امیرصاحب سے کچھ بڑھ کرتھے، وہ عموماً تہجد میں پانچ چھ پارے پڑھتے تھے، ان دونوں بزرگوں کودیکھ کر میری آرزو بھی جاگ اٹھی، اوراسی وقت سے تہجد کاالتزام کرلیا ،گھر پر آکر رات کوعموماً دوبجے یااس کے کچھ بعد میں اٹھ جاتا، اورنوافل میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا، اس کے بعد روزانہ ایک پاؤ قرآن مجیدیادکرتا،صبح سات بجے تک اس سے فارغ ہوجاتا،اس میں تخلُّف کم ہوتا ،تخلُّف ہوتاتو کسی بیماری کی وجہ سے یاکسی ضرورت سے کہیں آنے جانے کی وجہ سے، آناجانا توبرائے نام ہوتا، خلوت کااہتمام بہت تھا۔
والدصاحب کے پاس دومکان تھے ایک رہائشی مکان، اورایک مکان میں کوئی رہتا نہ تھا، اس میں کپڑابننے کے کرگہہ لگے ہوئے تھے ، جن پرمزدور کاریگر بنائی کرتے تھے ،اس میں ایک بڑاصحن تھاجس میں نیم کاایک بڑاسایہ دار درخت تھا، اورباقی گھاس وغیرہ سے بھرارہتاتھا ،اس میں دولمبے لمبے کھپریل کمرے تھے، انھیں میں سے ایک میں ہتھ کرگہہ تھے، ایک کمرے میں آدھے حصے میں لکڑی وغیرہ رہاکرتی تھی اورآدھا خالی تھا میں نے اسی آدھے حصے میں دیوار سے متصل تین طرف سے ٹاٹ کے پردے لگاکر چھوٹاسا حجرہ بنالیا تھا