دکان دلدار نگر بازارمیں کھولی،وہ اس پر بیٹھتے اورقریب ہی ایک ڈاکٹر صاحب کا دواخانہ ہے ان کے یہاں سے اخبار منگاکر پڑھتے،کئی روزتک یہ سلسلہ رہا،تو ڈاکٹر صاحب نے ایک دن اکتا کرکہلوایاکہ مولوی صاحب کواخبار پڑھناہے توخرید کر پڑھیں ، مولوی صاحب نے یہ بات سنی تو انھیں جلال آگیا، جوآدمی یہ پیغام لایاتھا اسی سے جواب کہلوایا کہ ڈاکٹر صاحب! اب اخبار ہی پڑھوگے، بازارمیں ایک سایہ دار درخت تھا، انھوں نے دوسرے دن اس کے سایے میں ایک چوکی بچھائی اس پر گدااور سفید برق چاندنی ڈالی،گاؤتکیہ رکھا اوردوزانو آنکھیں بندکرکے درویشوں کی طرح بیٹھ گئے،تعویذ گنڈوں کی مہارت توتھی ہی، لوگ اپنی ضروریات کیلئے رجوع ہونے لگے، آٹھ دس دن گزرتے گزرتے وہاں زبردست ہجوم ہونے لگا مریضوں نے ڈاکٹروں کا راستہ چھوڑدیا، ہرقسم کے مریض ان کے پاس آنے لگے یہ کسی پر دم کرتے کسی کیلئے پانی پر تیل پر دم کرتے ،طبیعت توپختہ تھی ہی، بات میں بھی بڑی پختگی تھی جس کے بارے میں جو کہ دیا، ویسا ہی بحکم خدا اس پر اثرپڑا، اس کا ایک ہنگامہ ہوگیا،ڈاکٹر صاحب واقعی اب مریضوں سے خالی ہوکر اخبار پڑھنے ہی کے کام کے رہ گئے ، اسپتال سے بھی مریض نکل آئے،ڈاکٹر صاحب کوجوش آیا،وہ آکر مولوی صاحب سے الجھنے لگے،داروغہ آگیا، اس کی بہن کویہاں سے شفا ہوئی تھی، وہ بھی بہت معتقد تھا اس نے ڈاکٹر کو ڈانٹ کربھگایا،ایک ماہ میں یہ رنگ ہوگیاکہ ہزارہالوگ ان کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے، رات کو گھر جاتے تو دروازے پر سینکڑوں کی بھیڑ ہوتی،نہ دن کو آرام نہ رات کو نیند ! بس اچانک ایک دن غائب ہوگئے تمام لوگ متحیر ہیں کہ کہاں غائب ہوگئے۔
میں نے بتایاکہ ایک ہفتہ توابھی میرے پاس رہے ،دوتین روزپہلے یہاں سے گئے، مولانا غلام رسول کو حیرت ہوئی،پوچھنے لگے کہ کہاں گئے میں نے کہا میں نے پوچھانہیں ۔
پھر عرصہ کے بعد جب میں شیخوپور میں آگیا ،دلدارنگر ان کی دکان پر ان سے ملاقات ہوئی ، فقیرانہ ہیئت میں رہتے ہیں ،جھاڑ پھونک عروج پرہے، مگر شان استغناء اب بھی قائم ہے ،شاید بیعت کا بھی سلسلہ ہے مگر مجھے اس کی تحقیق نہیں ۔