عربی چہارم تک ساتھ رہے،عربی دوم میں یہ تکرار کرایاکرتے تھے عربی سوم وعربی چہارم میں میرے ساتھ رہے ،اپنے بعض خاص حالات کے باعث عربی چہارم کی تکمیل کے بعد یہ دارالعلوم دیوبند چلے گئے وہاں انھوں نے اپنے ساتھیوں سے میرا تذکرہ کررکھاتھا، ایک سال کے بعد جب میں دارالعلو م پہونچاتو بعض واقعات کی بناء پر ابتداء ہی میں میرا شہرہ ہوگیاتھا، توکئی طلبہ حافظ صاحب کے حوالے سے ملنے آئے، دیوبند میں حافظ صاحب اور میرے تعلقات میں مزید پختگی آئی،ان کے والد بمبئی میں رہاکرتے تھے وہاں سے وہ پابندی سے ان کیلئے پچاس روپئے ماہانہ بھیجا کرتے تھے،اورمیرے پاس تیس روپئے ماہانہ آتے ، تیس روپئے میں اس وقت بہت فراغت سے کام چلتا تھا، حافظ صاحب کاشمار اصحاب ثروت میں تھا، دیوبند میں میرااور ان کا معاملہ یہ تھا کہ ایک لفافہ میں دونوں کے روپئے مشترک طور پررکھ دیئے جاتے تھے ان کا خرچ کم تھا ،کم تومیرابھی تھا،دیوبند میں کبھی کبھی کتابیں خریداکرتاتھا،ظاہرہے کہ ان کے پیسے بھی میرے خرچ میں آتے تھے مگر انھوں نے نہ کبھی حساب رکھا،اورنہ کبھی میرے اوپر اپناکوئی احسان سمجھا،مگر میں ذہنی طورپر حساب کرتاتھا،دیوبند میں توچھ ماہ تک ساتھ ہی رہا مگر معاملہ تتربتر ہوگیا، انھوں نے بھی دیوبندکا پھر رخ نہیں کیا میں جب امروہہ آگیا، توانھیں یہاں بلالیا،معاملہ پھر وہی دیوبند والارہا، سال گزرنے کے بعد ذہنی اعتبار سے میں ان کا تقریباً ڈیڑھ دو سوکامقروض تھا، میں نے والد صاحب سے اس کاذکر کیا،وہ رقم انھوں نے دیدی،میں نے ڈرتے ڈرتے حافظ صاحب سے اس کا ذکرکیا، انھوں نے اس کے سننے سے بھی انکارکیا، لینے کی بات تودرکنار !
میں نے دارالمصنفین جاکر ان پیسوں سے کتابیں خریدلیں ۔
ختم ہوادورطالب علمی کا
فالحمدﷲ الذی بنعمتہ تتم الصالحات
ابراج الخزندار مکۃ المکرمہ
یکم محرم الحرام ۱۴۲۹ھ مطابق ۹؍ جنوری ۲۰۰۸ء