چند ہزار بنتی تھی، پھروہ بازار میں آئے ،محلہ کے کسی کپڑے کے دکاندار سے کہا ، اتنی رقم ہے؟ مجھے ابھی ضرورت ہے،بعد میں دیدوں گا، اس نے فوراً اتنی رقم دیدی یہ اسی رکشہ پر واپس گئے اورنوٹوں کی گڈی انھیں تھمادی کہ یہ آپ کے چندے کی رقم واپس، آئندہ چندہ نہ دیجئے گا اوربنیادوہاں سے ہٹالیجئے،یہ کہہ کرفوراً وہاں سے واپس ہوگئے،اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بنیادوہاں سے ہٹ گئی اورسینکڑوں معذرت کے ساتھ رقم واپس کی۔
وہ تعویذ بھی لکھتے تھے ،اس بیماری میں عورتیں زیادہ مبتلاہوتی ہیں ، انھوں نے مسجد کے طویل وعریض احاطے کے ایک حصے میں ایک کمرہ تعمیرکرایاتھا، ضرورت مند عورتیں اسی کمرہ میں آکر بیٹھتیں اوریہ تعویذ لکھ کرکسی بچے کے ہاتھ بھجوادیتے۔
جب تک میں امروہہ میں رہا اسی رنگ پر دیکھا بعدمیں معلوم ہواکہ وہ ہمارے مدرسہ دارالعلوم حسینیہ چلّہ کے مہتمم بنادئے گئے تھے بہت عرصہ کے بعد معلوم ہواکہ انھوں نے امروہہ چھوڑدیاہے۔
غالباً ۱۹۸۳ء کا کوئی مہینہ تھا ،میں شوکت منزل مدرسہ دینیہ غازیپور میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا،یہ کمرہ عمارت کی چھت پر واحد کمرہ تھا اچانک مولوی اجمل صاحب اس میں واردہوئے ،انھوں نے مجھ سے کہا میں یہاں ایک ہفتہ رہوں گا، یہیں رہوں گا، نمازبھی اسی میں پڑھوں گا،کسی کومیرے بارے میں بتانا مت! میں نے کہا نیچے باجماعت نمازہوتی ہے اس میں آپ شامل ہوں ،آپ کوکوئی نہیں جانتا، اورمیں کسی سے تذکرہ بھی نہ کروں گا، چنانچہ وہ خاموش اورگوشہ نشین رہے،میزبانی کاشرف مجھے حاصل ہوا، میں نے کچھ پوچھانہیں ، انھوں نے کچھ بتایانہیں ،ایک ہفتہ کے بعد اچانک انھوں نے کہامیں جارہاہوں ،میں ان کامزاج جانتاتھا، میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ کہاں ؟وہ چل دئیے۔
دوتین روزکے بعد مدرسہ مخزن العلوم دلدار نگر کے استاذ مولاناغلام رسول صاحب تشریف لائے ،وہ کہنے لگے دلدار نگرکی کوئی خاص خبر آپ کو نہیں معلوم؟ میں کچھ نہیں جانتاتھا انھوں نے بتایاکہ موضع کرہ کے ایک مولوی اجمل صاحب ہیں انھوں نے کپڑے کی ایک