میں صبح کے وقت اعلان کردیتے کہ مسجد کی فلاں ضرورت کیلئے اتنی رقم کی ضرورت ہے ،پانچ بجے شام تک آپ لوگ اتنی رقم پوری کردیں ، اس اعلان کے بعد رقم ان کے پاس پہونچنے لگتی،اگر وقت متعینہ سے پہلے مطلوبہ رقم آجاتی توپھر چندہ لینا موقوف کردیتے اورفرماتے کہ رقم پوری ہوگئی،بعدمیں جب ضرورت ہوگی تولائیے گا،اوراگرکبھی وقت پوراہوگیا اور بقدر اعلان رقم نہیں آئی تووقت کے بعد کوئی رقم نہ لیتے ، اورضرورت مختصر کردیتے اس کااثر یہ تھا کہ اعلان ہوتے ہی فوراً فوراً رقم مہیاکردی جاتی۔
امروہہ کے تاجر دہلی میں بہت رہتے ہیں ،وہاں کے تجار سال میں ایک مرتبہ مولوی صاحب کودعوت دے کر بلاتے کہ یہاں سے چندہ ہو،مولوی صاحب چندہ کیلئے نہ کسی کے گھر جاتے اورنہ کسی کی دکان پر ،بس ایک جگہ قیام ہوتا اوراطلاع کرادیتے کہ میں اتنے دنوں تک یہاں رہوں گا لوگ اپنی سہولت کے لحاظ سے مسجد اورمکتب کاچندہ پہونچا دیں ، لوگ اس وقت کے اندررقمیں پہونچا دیتے۔
محلے پر ان کا بہت اثرتھا، لوگوں کے جھگڑے قضیے خودجاکر چکادیاکرتے کسی بھی معاملہ میں کچہری جانے کو منع کردیاتھا،اگر کسی جگہ کچھ نزاع معلوم ہوتی تووہ خود پہنچ جاتے یافریقین کوبلالیتے، اورمعاملہ رفع دفع کردیتے۔
محلے میں ایک اورمسجد تھی اس سے ملحق ایک صاحب ثروت کا مکان تھا وہ اپنا مکان بنوارہے تھے ،اپنے مکان کو درست کرانے کیلئے انھوں نے مسجدکی زمین کے کچھ حصہ میں بنیاد رکھ دی تھی، مسجد والوں نے ان پر اعتراض کیا،مگر وہ اپنی مالداری کے زعم میں بات ٹال گئے، مولوی اجمل صاحب کو معلوم ہوا، یہ رکشہ پر وہاں گئے،دیکھاتووہ سیٹھ صاحب وہاں موجود تھے، انھوں نے رکشہ پر بیٹھے ہی بیٹھے اپنے پختہ جلالی لہجہ میں ان سے کہاکہ مسجدکی زمین سے اپنی بنیاد ہٹالیجئے، انھوں نے کچھ جواب دینا چاہا مگر مولوی صاحب نے کہا کہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں ، وہ غصے میں آگئے وہ ان کے مکتب کوشاید اچھی رقم دیتے تھے، کسی عنوان سے اس کا تذکرہ کردیا،انھوں نے رکشہ گھمایامدرسہ پر آئے،رجسٹر دیکھا ان کے چندے کی رقم دیکھی ،