ہوا، لیکن یاد نہیں کہ کیاتقریب ہوئی کہ ایک روز ان کی مسجد میں جاناہوا، وہاں ایک مکتب بھی چلتاتھا، جس میں وہ پڑھاتے تھے ،امروہہ میں تعویذ اورجھاڑپھونک کابہت زورتھا، مولوی صاحب اس میں بھی دخل رکھتے تھے،ہم لوگ پہونچے تووہ بہت خوش ہوئے کہنے لگے تم لوگ پورب کے ہو، میں بھی وہیں غازیپور کاہوں تم لوگ ٹھہرو میں پورب کاکھانا پکواتاہوں ،پھر کسی لڑکے کوبھیجا اوراس سے کہلوادیاکہ فلاں فلاں کھاناپکاؤ،میرے مہمان ہیں ، دوگھنٹے کے بعد دیکھاتو واقعی ہم لوگوں کے مزاج کے مطابق گوشت ،دال ،چاول پک کر آگیا۔
معلوم ہواکہ مولوی اجمل صاحب غازیپور کے کسی گاؤں کے رہنے والے ہیں سادات میں سے ہیں ، مگر اپنا سیدہونا کبھی ظاہر نہیں کرتے، مدرسہ حیات العلوم مرادآبادکے فارغ ہیں ، فراغت کے بعد یہاں امامت کے لئے آگئے ہیں ، ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، بادشاہوں کی سی شان سے اس محلہ میں رہتے ہیں ،گفتگو ہی سے طبیعت کی پختگی ،دینداری اورجاہ وجلال کا پتہ چلتاتھا،آہستہ آہستہ ان کے بارے میں معلومات ہوتی رہیں ،اس شان کا آدمی اس وقت تک تومیں نے نہیں دیکھاتھا اس کے بعدبھی کم نظرآئے،ان سے میری طبیعت متأثر ہوئی اس لئے قدرے تذکرہ ان کالکھتاہو ں ۔
سب سے اہم شان جوان کی نظرآئی وہ شان استغناء تھی، استغناء کوکبرتک پہونچنے میں دیرنہیں لگتی ،اورمجھے کبھی کبھی ان کے رویے سے اس کی بو معلوم ہوتی تھی مگراستغناء میں کبر کی بوگوارہ ہے، حرص کی ذلت گوارہ نہیں ان کا اندازیہ تھا کہ اپنی مسجد والوں سے امامت کا معاوضہ وہ اس وقت سوروپئے پاتے تھے، اوراخراجات شاہانہ رکھتے تھے ایک مرتبہ وہ گھر گئے ہوئے تھے، مسجدکی کمیٹی نے ان کے کام اوران کے اخراجات کودیکھ کر تنخواہ بڑھادی ،جب وہ واپس آئے اوربڑھی ہوئی تنخواہ انھیں دی گئی، توانھوں نے انکارکردیا اورکمیٹی طلب کرکے انھوں نے کہاکہ میں نے تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کیاتھا؟نہیں !توپھر کیاضرورت تھی ،بلکہ کیاحق تھا تنخواہ بڑھانے کا،جوپہلے تھی وہی رہے گی۔
اگر مسجد کو کسی ضرورت سے رقم کی ضرورت ہوتی تووہ مسجد کے لاؤڈاسپیکر سے محلہ