گہرا ہے ، اور جوں جوں مدت گزرتی جارہی ہے تجربہ بڑھتا جارہا ہے، اس کا تاثر بھی گہرا ہوتا جارہا ہے ، میں اسے لکھتا ہوں اور طالب علموں سے سے نیز طالبان کمال سے امید کرتا ہوں وہ اسے یاد رکھیں گے۔
ہوا یہ کہ حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب علیہ الرحمہ جمعہ کے روز علی الصباح فرائض کی مشہور کتاب ’’ سراجی‘‘ پڑھایا کرتے تھے ، سراجی کا سبق ہفتہ میں ایک ہی دن ہوتا تھا، اس سبق کی جماعت بھی بہت بڑی تھی ، میں اس سبق میں شریک نہ تھا ، میں نے اگلے سال کے لئے اسے موخر کررکھاتھا ۔ ایک دن سبق کے بعد مولوی عزیز الرحمن سیدھے میرے پاس آئے ، ان کا چہرہ قہرآلود ہورہا تھا ، میں دیکھ کر سمجھ گیا کہ کچھ معاملہ کرکے آرہے ہیں ، میں نے بات پوچھی ، کہنے لگے آج سراجی کے سبق میں ہنگامہ ہوگیا ، اور ایک طالب علم سے تلخی پیدا ہوگئی ، جس طالب علم کا انھوں نے نام لیا وہ شوخی وشرارت اور بے خوفی وانتقامی جذبے میں بدنام تھا ، سب طلبہ اس کی شرارت سے ڈرتے تھے ، میں ڈرا کہ کوئی فتنہ نہ ہوجائے ، مگر مولوی صاحب مطمئن تھے ، انھوں نے بتایا کہ آج سبق میں حضرت مفتی صاحب نے ایک مشکل مسئلہ سمجھایا، مسئلہ ذرا گنجلک تھا اور حضرت مفتی صاحب کو بہت واضح بیان پر قدرت نہیں ہے ، لیکن انھوں نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی ، پھر طلبہ سے پوچھا تم لوگ سمجھ گئے ، مذکورہ طالب علم نے جھٹک کر جواب دیا کہ کچھ نہیں سمجھے ، حضرت نے پھر محنت کی ، اور دوبارہ پوچھا کہ سمجھ گئے ، اس نے پھر کڑک کر کہا خاک نہیں سمجھے ، مفتی صاحب آزردہ ہوگئے، انھیں ایک دھکا سا لگا ، چہرہ ان کا سرخ ہوگیا ، پھر وہ سہ بارہ سمجھاناچاہ رہے تھے ، مگر آواز متاثر تھی ، مجھ سے نہ رہا گیا ، میں نے کھڑے ہوکر بلند آواز سے کہا حضرت ! بالکل سمجھ میں آگیا ، خوب اچھی طرح سمجھ میں آگیا ، یہ جھوٹا ہے ، شریر ہے وغیرہ، حضرت مفتی صاحب کا رنگ بدل گیا ، خوش ہوگئے ، پھر سہ بارہ نہیں سمجھایا ، سب طلبہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تمہاری جرأت کا انتقام لے گا ، مگر مجھے پروا نہیں ۔