آواز تھی ، ہر جمعہ کو یہ رسالہ نو بنو اورفکر انگیزمضامین کے ساتھ طلوع ہوتا ، اور لوگ بڑے ذوق وشوق سے اسے پڑھتے ۔ میں ان دنوں جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں طالب علم تھا ، مجھے بڑی بے تابی سے اس کا انتظار رہتا ، جمعہ ایڈیشن سنیچر کو مبارک پور میں پہونچتا اورمیں اسے بتمام وکمال پڑھ لیتا، پھر ہفتہ بھر اس کے منتخب مضامین پڑھتا رہتا ، دوسروں کو سناتا اور اسی انداز پر لکھنے کی مشق کرتا ، میں وحید الدین خاں سے اسی جمعہ ایڈیشن کے واسطے سے واقف ہوا ، اسی وقت معلوم ہوا کہ یہ صاحب پہلے جماعت اسلامی میں تھے اور اس سے نکل چکے ہیں ، انھوں نے جماعت اسلامی سے نکلنے کے بعد ایک کتاب بھی ’’ تعبیر کی غلطی ‘‘ کے نام سے لکھی ہے ، مبارک پور میں یہ کتاب مجھے نہ مل سکی تھی ، دیوبند آکر میں نے آغاز تعلیم ہی میں اس کامطالعہ کیا ، بہر حال اس وقت وحید الدین خاں کے ساتھ بڑی جذباتی وابستگی ہوچکی تھی ، ان کی ہر تحریر نوشتۂ تقدیر کی طرح پڑھتا تھا ، ان کی ہر بات فکر ونظر کی شاہکار معلوم ہوتی تھی۔
معلوم ہوا کہ ہمارے استاذ محترم حضرت مولاناوحید الزماں صاحب کیرانوی نے انھیں دارالعلوم آنے کی دعوت دی ہے ، اور دار الحدیث ( فوقانی) میں ان کا خطاب ہوگا، طلبہ بڑی عقیدت سے ان کے خطاب میں شریک ہوئے ، اس وقت انھوں نے کیاکہا ، اب یاد کہاں ؟ ہاں اتنا یاد ہے کہ اخیر میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور عمل وکردار کی ضرورت کے متعلق کچھ کہتے ہوئے اچانک ان کی آواز بھرا گئی ، اور آگے بولنے کے بجائے ناتمام جملوں پر بات ختم کرکے بیٹھ گئے ، ان کے اس ڈرامائی انداز پر خطاب ختم کرنے کا وہ اثر ہوا کہ بیشتر طلبہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ، ان کے خطاب کا اتنا شدید اور گہرا تاثر ہوا کہ بہت دیر تک ہم لوگوں کی حالت بدلی سی رہی ، لیکن ؎
خوش درخشید ولے دولت مستعجل بود
یہ چراغ جس تیزی سے روشن ہواتھا ، اسی تیزی سے بعد میں کالادھواں پھینکنے لگا ، اور فکر ونظر کی فضا اس دھویں کی آلودگی سے تاریک ہونے لگی ، اور اب ’’وحید الدین خاں ‘‘