کربناک اور دردناک دور انھوں نے کس طرح گزارا ،اور کس طرح توفیق الٰہی نے انھیں ثابت قدم رکھا، اس کو تو پڑھ کر صحابی رسول حضرت کعب بن مالک ص کی آپ بیتی یاد آنے لگتی ہے جو غزوہ تبوک سے تخلف کے بعد پچاس دن کا وقفہ تھا ، جس کو قرآن نے : ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ ،سے تعبیر کیا ہے ، لیکن اپنا واقعہ سنانے میں انھوں نے کہیں ایک حرف بھی جھوٹ نہیں کہا ، یہی سچائی تھی جس نے ان کو معیارِ عمل بنادیا تھا، اﷲ نے ان لوگوں کو معیار صداقت بناکر مسلمانوں کو حکم دیا کہ:کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ
دار العلوم دیوبند کی تعلیمی زندگی اور اس کے غیر معمولی اثرات کوحضرت مولاناؒ نے بے کم وکاست اور بغیر رسوائی کے خوف کے تفصیل کے ساتھ حرف بحرف پوری سچائی کے ساتھ قارئین کے سامنے کردیاہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ حکایت ہستی‘‘ سوانح برائے سوانح یا ادب برائے ادب نہیں بلکہ یہ ایک پیغام ہے ، ایک سبق ہے ،عبرت وموعظت کی ایک داستان ہے جودوسروں کی زندگی کو سنوارنے، نکھارنے اور جذبات وحالات کی رو میں بہنے سے روکنے کے لئے لکھی گئی ہے ، اور یہ سبق دیتی ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی ناگفتہ بہ ہوں لیکن انسان اگر اپنے آپ کو خدا کے حوالے کرکے ثابت قدم رہے تو آزمائشوں کی تاریک گھٹا دیر سویر چھٹ کر رہے گی ، اور اسی کی اوٹ سے کامرانیوں کا آفتاب طلوع ہوگا، اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ قدرت کوآئندہ آپ سے جوکام لیناتھا اس کے لئے کٹھن سے کٹھن حالات سے آپ کو گزاراگیا تاکہ کندن بن سکیں ، کہ ع
فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
بہرحال یہ کتاب بعد کے لوگوں کے لئے بالخصوص طالبان علوم نبویہ کے لئے ایک مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں وہ راہ علم کو بسہولت طے کرسکیں گے۔ اور اس میں پیش آنے والی دشواریوں اورمشکلات سے بخوبی نبردآزما ہوسکیں گے۔
حضرت مولانا نے اپنی حیات میں زمانہ طالب علمی کے احوال کو حصہ اول بناکر