شائع کروادیا تھا ، اور توقع تھی کہ دوسرے حصہ میں مدرسی کے زمانے کے احوال وہ سنائیں گے ،اور یہ حصہ تعلیم وتربیت کے لحاظ سے بہت اہم تھا ، اس لئے کہ وہ اس ہستی کے تدریسی دور کے حالات ہوتے جس کی سب سے نمایاں خصوصیت تعلیم وتربیت اور درس وتدریس ہی تھی، وہ خود اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں :
’’میں طبعاً مدرّس اور معلّم ہوں ، مطالعۂ کتب میرا شوق ہے ، طلبہ کو پڑھانا میرا ذوق ہے ،ا طاعت وسپردگی میری طبیعت ہے ، ذکر الٰہی میری غذا ہے ، فکر آخرت میری سوچ ہے۔ طبیعت اسی رنگ میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ‘‘
اہل علم کو اس کا بہت شدت سے انتظار تھا ، چنانچہ لوگوں کے تقاضے پر یہ حصہ شروع بھی کردیاتھا ،لیکن اخیر زمانہ حیات میں شدید ومدید بیماری اور ضعف نے اس قدر نیم جاں بنادیا کہ لکھنے کا تسلسل باقی نہ رہ سکا، اور زمانہ تدریس کے ساٹھ ستر صفحات لکھنے کے بعد حکایت ہستی کا یہ سچاراوی ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔اب جبکہ اس کی دوبارہ اشاعت کا وقت آیا تو خیال ہوا کہ بقیہ حصہ کو بھی مطبوعہ کتاب میں شامل کرکے شائع کردیا جائے اور شروع میں مختصر سوانح چند صفحات میں لکھ دی جائے جس سے قارئین حکایت ہستی کی انتہا سے بھی واقف ہوجائیں ، گوسرسری طور پر ہی سہی!
چنانچہ میں نے اختصار کے ساتھ مکمل سوانح لکھ کر کتاب کے شروع میں شامل کردی ہے۔ اﷲ تعالیٰ سابقہ ایڈیشن کی طرح اس کو بھی شرف قبولیت سے نوازے اور مولف مرحوم کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے۔آمین
ضیاء الحق خیرآبادی
مدیر مجلہ سراج الاسلام
استاد مدرسہ سراج العلوم ،سراج نگر،چھپرہ ضلع مئو یوپی
۲۹؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۱؍مارچ ۲۰۱۵ء شنبہ
٭٭٭٭٭