اُن کی تحریریں بہت مقبول ہوئیں ؛ کیوں کہ علمی مواد اور متعلقہ موضوعات پر بھرپور معلومات کے ساتھ ساتھ اُن کے یہاں زبان کی چاشنی اور ادبی تراوش بھی پائی جاتی تھی۔ اُن کے مستفیدین وتلامذہ اُن کے بہت گرویدہ ہوتے تھے؛ کیوں کہ اُن کے یہاں علم وعمل کی یک رنگی اور قول وفعل کا اتحاد تھا، ایسا عالم ہمیشہ محبوب ہوتا ہے جس کے یہاں علم وعمل میں اختلاف نہیں ہوتا۔ اُنھوں نے مرتب زندگی گزاری اِس لیے اسفار ورحلات کے باوجود ڈھیر سارا علمی کام کرنے میں کام یاب رہے۔
واقعی حضرت الاستاذ فضل وکمال کی دنیا کے ایسے فرد کامل تھے جن پر ’’عالم ربانی‘‘ کااطلاق حق بجانب ہے، وہ ان کمیاب بلکہ نایاب علماء میں سے تھے جو آخرت کے لئے جب رخت سفر باندھتے ہیں تو ایک تاریخ چھوڑجاتے ہیں ، ایک راہ مقرر کرجاتے ہیں جس پر بعد والوں کے لئے چلنا آسان ہوتا ہے۔
مولانا نورعالم صاحب ’’ حکایت ہستی ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں :
اُنھوں نے یہ بہت اچھا کیا کہ اپنے قلم سے اپنی سوانح بھی لکھ دی اور ’’حکایتِ ہستی‘‘ کے نام سے وہ شائع بھی ہوگئی، لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور خوب پڑھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل علم کو (بہ شرطے کہ اُسے اچھا لکھنا بھی آتا ہو) اپنی زندگی کی کہانی خود ہی لکھ جانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ آنے والوں کے لیے باوثوق ماخذ بھی ہوتی ہے اور عہد وماحول کی سچی تصویر بھی۔ دوسروں کے ہاتھوں دوسروں کی باتیں اِتنی سچی پکی نہیں ہوسکتیں ، جتنی کسی کی اپنی زبان سے اپنی باتیں ، نیز گردوپیش کے حالات اور برتے ہوئے معاصر انسانوں سے انسان جتنا خود واقف ہوتا ہے، کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
حضرت مولانانے اس میں پوری دیانت وصداقت اور حق گوئی وبے باکی کے ساتھ اپنے اوپر گزرے ہوئے احوال کا ذکر کیاہے ، میری فرمائش پر اپنے مطالعہ کی داستان سناتے ہوئے انھوں نے داستان حیات کے تمام گوشوں کو ابتدائی مکتبی زندگی سے لے کر احیاء العلوم مبارکپور، دارالعلوم دیوبند ،مدرسہ چلہ امروہہ اور میسور کی تدریسی وتبلیغی زندگی کے تمام اہم واقعات وسرگزشت کو بیان کردیا ہے۔خاص کر اپنی داستان حیات کا سب سے