یہاں مولوی عزیز الرحمن صاحب کی ایک یاد دل میں کھٹک رہی ہے ، اورقلم سے ٹپکنے کیلئے بے قرارہے ۔ مولوی عزیز الرحمن نودرہ میں بیٹھے مشغول تھے اور میں کہیں اور تھا ، رات کے دو بجے میں اپنی جگہ سے اٹھااور اپنے کمرے کی طرف چلا ، راستے میں نودرہ پڑتا تھا ، انھیں دیکھا اکیلے بیٹھے کچھ لکھ رہے ہیں ، میں ان کے پاس چلا گیا ۔ پوچھا کہ کیا کررہے ہیں ؟ بولے اشعار کہہ رہا ہوں ، پھر کہنے لگے کہ آج فلاں رسالہ میں پڑھا ہے کہ فراقؔ گورکھپوری ایک نشست میں دودوسو شعر کہہ لیتا ہے ، میں اپنی طبیعت کو آزما رہاہوں ، پھر کتنے شعر ہوئے؟ کہنے لگے دس بجے سے بیٹھا ہوں اور ڈھائی سوشعر کہہ چکا ہوں ، میں نے کہا ماشاء اﷲ ! اور وہاں سے چلا گیا۔
ان کی برجستگی کا یہ حال اب بھی قائم ہے ، گوکہ شعر کہنا اب بہت کم کردیا ہے ۔ اب وہ بمبئی میں رہتے ہیں اور وہاں کے معتبر صاحب فتویٰ ہیں ، ایک روز ہم چند لوگ بھیونڈی میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے ، میرے بوڑھے دوست حاجی عبد الاحد صاحب جو پان بہت کھاتے ہیں اور عطر بہت لگاتے ہیں ، انھوں نے باریک کپڑے کا اپنا رومال بچھا رکھاتھا ، اس پر پان کے دھبے بکثرت پڑے ہوئے تھے ، اورخوشبو سے معطر بھی تھا ۔ مولوی عزیز الرحمن نے اس پر سجدہ کیا اور سلام پھیرتے ہی ارشاد فرمایاکہ ؎
پان کے دھبوں سے بھی آتی ہے خوشبو عطر کی
مولوی عبد الاحد کی یہ کرامت دیکھئے
تعلیمی یکسوئی کی یہ داستان بہت لذیذ ہے ، مگر اس کی مدت کم رہی ، دار العلوم دیوبند میں اس وقت تین امتحانات ہوتے تھے ، سہ ماہی ، ششماہی اور سالانہ! میری داستان ششماہی تک چل کر ختم ہوگئی ، اس وقت مطالعہ کا وہ جوش تھا کہ آج میں اپنے طالب علموں کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہدایہ اخیرین حضرت مولانا اختر حسین صاحب علیہ الرحمہ المعروف بہ ’’میاں صاحب ‘‘ پڑھاتے تھے ، ان کا سبق ایجاز واختصار اور برکت وکرامت کا