شاہکار تھا ، مطلب بتانے میں وہ اتنے ہی کلمات بولتے تھے جتنے صاحب ہدایہ نے لکھے ہیں ، مگر اتنے واضح اور آسان ہوتے تھے کہ بات ذہن نشین ہوجاتی تھی ، ایک گھنٹہ پڑھاتے تھے مگر سبق خواہ کتنا ہی دشوار ہو چار صفحے پڑھادیتے تھے ، کبھی کبھی فرماتے کہ آج سبق عربی میں ہوگا اور پھر وہ ہدایہ کی عبارت کو طالب علم کی قرأت کے بعد خود پڑھ دیتے ، مگر اس طرح پڑھتے کہ فہیم طلبہ کے لئے مطلب کھلتا چلاجاتا ، مجھے ان کے سبق میں کبھی یہ شکایت نہیں ہوئی کہ فلاں بات یا فلاں دلیل سمجھ میں نہیں آئی ، اسی لئے امتحان سہ ماہی میں مَیں نے اس کا باطمینان تکرارکرایا ، حالانکہ ہدایہ اخیرین ایک مشکل ترین کتاب ہے ، امتحان شش ماہی کا وقت آیا تو میں نے پروگرام بنایا کہ جس قدر کتاب ہوچکی ہے سب کاایک مرتبہ اپنے طور پر مطالعہ کرلوں ، پھر تکرار کے لئے بیٹھوں ، اسبا ق ہنوز جاری تھے ، جمعہ کے روز چھٹی ہوتی تھی ، میں ایک جمعہ کو علی الصباح کتاب لے کر روپوش ہوگیا، اور متواتر پانچ گھنٹے تک ہدایہ اخیرین کا مطالعہ کرتا رہا، جب جمعہ کا وقت قریب ہواتو میں اس کی تیاری کے لئے کمرے میں پہونچا، ساتھیوں نے غُل مچایا کہ کہاں غائب تھے ، میں نے بتایا کہ ہدایہ پڑھ رہاتھا ، کسی نے جل کر کہا کون سا تیر مارلیا؟ میں نے بھی اسی لہجے میں کہا کہ پانچ گھنٹے میں ۷۰؍ صفحے حل کرکے آرہا ہوں ، سب نے تردید کی ، کہ ایسا ہوہی نہیں سکتا، مانا کہ تم کتاب سمجھتے ہو ، مگر ہدایہ جیسی مشکل کتاب پانچ گھنٹے میں ۷۰؍صفحے حل کرلو ، ممکن نہیں ؟ میں نے کہا ۷۰؍ صفحے میں جہاں سے چاہو پوچھ لو ، اگر کہیں اٹک جاؤں تو تم سچے! مگر کسی نے ہمت نہ کی۔
مگر آہ! کہ تقدیر نہ تھی ، نہ تکرار کراپایااور نہ امتحان دے سکا، بساط الٹ گئی ، معاملہ درہم برہم ہوگیا ، طبیعت پر وہ چوٹ پڑی کہ شیشۂ دل چور چور ہوگیا ، پھر ان ریزوں کو اکٹھا کرنے اور جوڑنے میں مدت لگ گئی۔
رفتم کہ خار از پا کشم محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل بودم وصد سالہ راہم دور شد