پابندی لگائی اور کھانا کم کرنے کو سوچاتو روزہ کی راہ نظر آئی ، رات کو جاگنے کا پروگرام تو تھا ہی ، اخیر شب میں سحری کاانتظام کیا ، اس انتظام میں مولوی عزیز الرحمن نے شرکت نہیں کی ، مجھے اس کے لئے ایک رفیق کی ضرورت تھی کہ اخیر شب میں سحری کے لئے کچھ گرم کرنے کی ضرورت پیش آئی ، تو میں کیا کروں گا ؟ اسٹوپ چلانے اور کچھ پکانے سے میں بالکل کورا تھا ، حق تعالیٰ کی مدد ہوئی ، ایک دوست بے وہم وگمان مل گئے ، یہ تھے مولوی عباد الرحمن بلند شہری بہت نیک اور متقی ! نماز تلاوت کے بہت پابند ، غالباً حضرت مولانا مسیح اﷲ صاحب جلال آبادی علیہ الرحمہ سے بیعت واصلاح کا تعلق رکھتے تھے ، مولوی عزیز الرحمن کے واسطے سے ان سے ملاقات ہوئی ، یہ دونوں ہم سبق تھے ، میرا ان کا کسی سبق میں ساتھ نہ تھا ، بہر حال ان سے عہد رفاقت باندھا گیا ، ان کے پاس خاموش برنل کا اسٹوپ تھا ۔ ہم دونوں سحری کے وقت اکٹھا ہوتے ، وہ سالن گرم کرتے اور ہم دونوں سحری کھالیتے ، میری مقدار سحری میں دار العلوم کی ایک تندوری روٹی تھی ، طلبہ کو ایک وقت میں دو روٹیاں ملا کرتی تھیں ، یہ ایک آدمی کیلئے کم نہ تھیں ، اور پانی کے ساتھ یہ سلوک کیا کہ اس کی چھٹی کردی ، ایک ہفتہ پانی پیتا ہی نہ تھا، صرف جمعہ کو احاطۂ مولسری کے کنویں کا پانی جو بہت ٹھنڈا اور عمدہ پانی ہے ، ایک ڈیڑھ جگ پی لیتا تھا۔ اس طرزِ عمل سے جاگنے میں بہت مدد ملی ، کتنا ہی جاگتا نیند کا غلبہ نہ ہوتا۔
ایک بارحضرت مولانا وحید الزماں صاحب کی خدمت میں حاضر تھا ، وہاں میرے بزرگ کرم فرما طالب علم مولانا عبد الوحید حیدرآبادی بھی موجود تھے ، وہ دار العلوم کے ممتاز طلبہ میں تھے ، جن کو مولانا نے صف اول کی تدریس کی ذمہ داری سونپ رکھی تھی ، انھوں نے کسی تقریب سے مولانا سے عرض کیا کہ حضرت! آپ کے پاس یہ دو جن بیٹھے ہوئے ہیں ، اور مولوی عزیز الرحمن اور میری طرف اشارہ کیا ۔ مولانا نے تعجب کااظہار کیا ، انھوں نے مولانا کو بتایا کہ یہ دونوں کئی رات سے سوئے نہیں ہیں ، مگر چہرے کی تازگی دیکھئے ، ذرا بھی نیند کااثر نہیں ہے۔