میں تھا اور یہ مشکوٰۃ شریف کی جماعت میں ! ہم دونوں کا نقطۂ اتحاد حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کا صف ثانوی کا درس تھا ، مولوی عزیز الرحمن کو بھی میری ہی طرح پڑھنے کا جنون تھا ، بلکہ ان کا جنونِ مطالعہ مجھ سے بڑھا ہوا تھا ، کیونکہ وہ بہت لاابالی مزاج کے تھے ، جس کتاب اور موضوع میں لگتے انھیں گرد وپیش کا ہوش نہ رہتا ، ان میں ایک ربودگی اور استغراق کی کیفیت تھی ، ان کی بھی رفتار مطالعہ تیز تھی ، وہ جسم اور دماغ کے لحاظ سے مجھ سے بہت مضبوط تھے ،تھکنا جانتے ہی نہ تھے ،جبکہ میں ان اوصاف سے محروم تھا ، مجھے باوجود شوق مطالعہ کے استغراق باید وشاید ہوتاتھا ، میں بچپن سے کمزور اور مریض تھا ، اس لئے تھک بھی جاتاتھا ،اور ان میں مزید ایک خوبی یہ تھی کہ طبیعت بہت موزوں پائی تھی ، طبیعت کی اس موزونی کے علاوہ ان کی ہر چیز غیر موزوں اور غیر مرتب تھی ، نہ وقت کی کوئی پابندی تھی ،نہ لباس میں کوئی ترتیب تھی ، نہ اٹھنے بیٹھنے میں کوئی نظم تھا ، بس طبیعت موزوں تھی اور ایسی موزوں تھی کہ بے ساختہ اشعار ڈھل ڈھل کر نکلتے تھے ، نماز پڑھ رہے ہیں ، سلام پھیرتے ہی جیب سے کاغذ قلم نکالتے ہیں ، کیا ہوا؟ دوشعر ہوگئے ، چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے بغیر کسی قید کے اشعار ڈھلتے تھے اور ایسے ویسے نہیں ، بہت معیاری! اس درجہ زود گو شاعر میری نظر سے ابھی تک نہیں گزرا۔
ہم دونوں نے آپس میں طے کیا تھا ،کہ رات کا بیشتر حصہ جاگ کر مطالعۂ کتب میں گزاریں گے ، ساتھ رہیں گے مگر بات چیت نہ کریں گے ، بس مطالعہ میں منہمک رہیں گے ، چنانچہ ہم دونوں پوری پوری رات ،بغیر گفتگوکے اور بغیر پیٹھ لگائے گزاردیتے تھے ، ایک بار تو مسلسل دو ہفتہ مَیں رات میں نہیں سویا،اور وہ بھی رفیق بیداری رہے، صرف دو گھنٹہ دن میں کھانا کھانے کے بعد میں سوتاتھا ، لیکن اﷲ کا فضل تھا کہ نیند کا دباؤ کبھی نہیں ہوتاتھا، اس جاگنے کے لئے کچھ تدبیریں بھی کام میں لاتاتھا ، کہیں پڑھاتھا کہ زیادہ پانی پینے سے زیادہ نیند آتی ہے ، کیونکہ اس سے مزاج بلغمی ہوجاتا ہے ، اور بلغمی مزاج والے کو نیند بہت آتی ہے ، اور یہ بھی کہ زیادہ کھانے سے زیادہ پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے ، میں نے اپنی طبیعت پر