ہوں گے تو نگاہ کو بار بار پیچھے کی طرف پلٹنا ہوگا لیکن از بسکہ نگاہ بہت لطیف شے ہے، اس لئے اس کے پلٹنے کااحساس نہیں ہوتا۔
اس نکتے کی دریافت کے بعد میں نے نگاہ اور ذہن ودماغ دونوں کو ہمراہ رکھنے کی مشق کی ، اس طرح ذہن کااستحضار بڑھا اور غفلت کم ہوئی ، اس پر ابتداء میں بہت محنت اور توجہ کرنی پڑی ، مگر آہستہ آہستہ قابو ملتا گیا اور نگاہ کا باربار پلٹنا کم ہوتا گیا ، پھر جب کبھی نگاہ پلٹتی تو مجھے اس کا ادراک ہوجاتا اورمیں ازسر نو تازہ دم ہوجاتا، اس طرح میرے مطالعے کی رفتار بہت بڑھ گئی ، یہ ایک مشق ہوئی۔
دوسری مشق یہ کی، کہ ایک نگاہ میں کئی سطریں پڑھنی سیکھنے کا اہتمام کیا ، عام طور سے مطالعہ دو طریقوں پر ہوتا ہے، بعض لوگ زبان سے پڑھتے ہیں ، یہ طریقۂ عمل بہت طویل اور دیر طلب ہے ، مطالعہ کرنے والے عموماً نگاہ سے مطالعہ کرتے ہیں ، وہ اس طرح کہ ہر سطر پر علیحدہ نگاہ ڈالتے ہیں ، اس طرح بائیس سطر کا صفحہ ہوتو بائیس نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے ، میں نے ایک نگاہ میں دو سطریں پڑھنے کی مشق کی ، یہ مشق مکمل ہوگئی ، تو ایک نظرمیں تین سطروں کو سمیٹا ، اس طرح مشق بڑھاتا رہا ، یہاں تک کہ ایک نگاہ میں آدھا صفحہ پڑھنے کی مہارت حاصل کرلی ، اس کے آگے نہیں گیا ، البتہ ایک نگاہ میں آدھا صفحہ پڑھنے کی مشق خوب ہوگئی ، پہلی مشق تو گھر اور مبارک پور میں کرلی تھی ، یہ آخری مشق دار العلوم کے کتب خانہ میں بیٹھ کر کی۔
مبارک پور کی طالب علمی میں ’’ حیاتِ شبلی‘‘ پڑھی تھی ، اس میں سیّد صاحب نے لکھا ہے کہ علامہ شبلی کے
’’ مطالعہ کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی کتاب اول سے آخرتک نہ پڑھتے تھے، فرماتے تھے کہ اگر یہ طریقہ اختیار کروں ، تو ایک ہی کتاب میں الجھ کررہ جاؤں ، بے ترتیبی کے ساتھ ادھر ادھراوراق الٹتے پلٹتے رہتے تھے ، اور نہایت سرعت کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے ، لیکن بایں ہمہ کتاب میں جو بہترین معلومات ہوتیں ، ان پر نگاہ پڑجاتی ، اور ان معلومات پر اس قدر حاوی ہوجاتے کہ کتاب پر