کا گزرنہ ہو، اور وہ شخص اپنے اورقاری دونوں کے حق میں مخلص ہو ، تاریخ سازی مقصود نہ ہو۔ ورنہ ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں یہ اوصاف عالیہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتے جارہے ہیں ،اور تجارتی نقطۂ نظر ، جھوٹی شہرت اور کردار کشی کے لئے بھی آپ بیتیاں لکھی اور لکھوائی جارہی ہیں جس میں حقائق کومسخ کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔
ہمارے بزرگوں نے بھی آپ بیتی اور خود نوشت سوانح لکھی ہے اور جس طرح انھوں نے اپنی کتابِ زندگی کو کھول کر پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دیا ہے اس سے ان کی بے لوثی ، دیانتداری، اخلاص نیت اور اصلاح ِامت کے جذبے کا اندازہ ہوتا ہے ،یعنی مقصدیت کو انھوں نے زبان وادب اور الفاظ وعبارت کے بازار میں ضائع نہیں کیا ہے۔
’’حکایت ہستی‘‘ بھی انھیں آپ بیتیوں میں سے ایک قابل قدر، مشعل راہ اور صداقت ودیانت کا مرقع، آپ بیتی ہے ۔ اس کے لکھنے والے استاذمحترم حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی نور اﷲ مرقدہ ورفع اﷲ درجاتہ دورحاضر کے ان باکمال علماء میں سے تھے جن کو خلاق عالم نے ہمہ گیر صفات اور گوناگوں خوبیوں سے نوازاتھا ، اس سلسلے میں مَیں خود کچھ نہ کہہ کر ان کے رفیق درس اور مشہور صاحب قلم عالم مولانا نور عالم خلیل امینی مدظلہ کی تحریر کا ایک اقتباس نقل کرنا چاہتا ہوں :
مولانا اعجاز احمد اعظمی نے علم وعمل کی دنیا میں بڑی نیک نامی حاصل کی، ملک کے منتخب روزگار علما میں اُن کا بھی نام لیا جاتا تھا۔ علومِ شریعت میں مہارتِ تامہ کے ساتھ ساتھ تدریس وتالیف اور اِحسان وتربیت کی دنیا میں بھی وہ اپنی شناخت رکھتے تھے۔ اُنھوں نے تعلیم وتربیت اور تحریر وتالیف کے ساتھ ساتھ دینی ودعوتی اسفار سے بھری پُری زندگی گزاری اور اِن سارے میدانوں میں اپنا نقشِ دوام چھوڑ گئے۔ وہ ایک صاحبِ نسبت شیخ بھی تھے، اچھے اور بافیض مدرس بھی، مقبول ومحبوب مصنف اور اہل قلم بھی اور بابرکت مقرر وواعظ بھی۔ وہ خوب صورت، شستہ، بے ساختہ اور بہت رواں اردو زبان لکھتے تھے، جو لسانی خوبیوں سے بھی خاصی مالامال ہوتی تھی؛ اسی لیے