چہل قدمی کا حال یہ تھا کہ نہایت صاف ستھرا لباس زیب تن کرتے ، سر پر مولانا آزاد والی ٹوپی پہنتے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دور تک ٹہل آتے ، راستے میں مختلف موضوعات پر اظہار خیال کرتے رہتے ، گفتگو کی زبان اتنی شستہ اور فصیح ہوتی ،جیسے مولانا آزاد کا قلم چل رہاہو ، مولانا آزاد کی تحریر اور قاری صاحب کی تقریر ، ہوبہو باہم دگر مشابہ ہوتی ۔
قاری صاحب سال ڈیڑھ سال کے تھے کہ کسی بیماری کی وجہ سے بینائی زائل ہوگئی تھی ، ان کے والد بمبئی میں رہتے تھے ، ان کا بچپن بمبئی میں گزرا ہے، علاج بہت ہوا مگر کامیاب نہیں ہوا۔ آنکھوں کی معذوری نے غور وفکر کی راہ کھولی ، پھر یہ راہ بھٹک کر فلسفہ کی طرف مڑگئی ، پھر شک وارتیاب کی دلدل نے ان کے پاؤں پکڑے ، جب میری ملاقات ان سے ہوئی تو یہ وساوس وشبہات کی وادی میں تہ وبالا ہورہے تھے، اس وقت اندیشہ ہورہا تھا کہ دین حق کے صراطِ مستقیم سے بھٹک کر کہیں وادیٔ ظلمات میں جانہ نکلیں ، لیکن روشنی کی ایک شعاع نے انھیں ادھر ادھر ہونے نہ دیا ، وہ یہ کہ انھیں قرآن کریم سے بہت محبت تھی ، قرآن یاد بھی بہت اچھا تھا ، اسی محبت نے انھیں راہِ حق پر مضبوط رکھا ، ورنہ ذہانت کی جو تیزی انھیں حاصل تھی قدم کا بہک جانا کچھ بعید نہ تھا ، لیکن اﷲ نے فضل فرمایا ، اس کی جستہ جستہ تفصیلات آگے بھی آئیں گی۔
ان دنوں قاری صاحب اپنے بعض احباب کو بہت اہتمام کے ساتھ خطوط لکھواتے تھے ، بازار سے عمدہ سے عمدہ کاغذ خطوط لکھنے کے لئے لاتے ، پھر فرماتے لکھو ، کاتب قلم کاغذ لے کر بیٹھ جاتا ، کاتب میں ہی ہوتا ، ان کی زبان پر فصاحت وبلاغت کا فرشتہ بولتا رہتا اور میں قلم بند کرتا چلاجاتا ، الفاظ ، معلومات ،برجستہ اشعار ، برمحل فقروں کا ایک سیل رواں ہوتااور میں انھیں کاغذ پر سمیٹتا رہتا ۔قاری صاحب کے مکاتیب کو جمع کیاجاتا تو ’’غبارِ خاطر‘‘ کاایک دوسرا جلوہ نگاہوں کے سامنے آجاتا ، مگر اس وقت وہ طالب علم تھے اور مخاطب بھی طلبہ ہی تھے ، میں نے ان خطوط کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا ، مگر اﷲ ہی جانتا ہے کہ کون مجھ سے مانگ کر لے گیا ، اور اب تک واپس نہیں کیا ، میں نے بہت تلاش کیا ، مگر کہیں پتہ نشان نہ ملا۔