حضرت مولاناقاری محمدطیب صاحب سے درخواست کی قاری صاحب مصلیٰ پر تشریف لائے، عیدگاہ کاممبر بہت اونچااوربہت وسیع وعریض تھا، اس کے اوپر چھ مکبروں کی صف لگی مجمع چونکہ بہت بڑاتھا اس لئے یہ سب مکبر بیک وقت تکبیر پکار رہے تھے اس وقت نماز میں لاؤڈاسپیکر کا عام رواج نہ تھا نماز شروع ہوئی پہلی رکعت خیریت سے گزرگئی دوسری رکعت میں قرأت کے بعد ۳؍تکبیرات زائدہ کہی گئیں ،اس کے بعد رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں جانا تھا حضرت مہتمم صاحب کو سہوہوا،وہ سجدے میں چلے گئے ہم لوگ قریب تھے،ہڑبڑا کر ہم لوگ بھی سجدے میں چلے گئے لوگوں نے لقمہ دینے کوشش کی لیکن ممبر کے اوپر جو مکبر تھے، ان کی بلند آواز میں کسی کو کچھ احساس نہ ہوا،مکبر تکبیر کہہ رکوع میں چلے گئے ،حضرت نے جب سجدے سے سراٹھا یا تواﷲ اکبر کہا،مکبروں کو ایک لمحہ جھٹکالگاکہ بجائے سمع اﷲلمن حمدہٗ کے یہ تکبیر کیسی؟ لیکن انھوں نے بلاتوقف ربنا لک الحمد پکاردیا ، اب مہتمم صاحب دوسرے سجدے میں گئے لیکن مکبرین اور ان کی آواز پراقتدا کرنے والے پہلے سجدے میں پہونچے ،حضرت دوسرے سجدے سے اٹھ کر تشہد پڑھنے لگے اورکچھ دیر کے بعدسلام پھیرا۔ سلام کا پھرناتھا کہ ایک شور اٹھا کہ ایک ہی سجدہ ہوا، ہم لوگ کہہ رہے تھے کہ رکوع نہیں ہوا،خیرنماز پھرپڑھی گئی، لیکن اس واقعہ سے رسول اللہ ا کی نماز کسوف کی مختلف روایات کے درمیان بعض علماء نے جو توجیہ کی ہے اس کا سراغ ملتا ہے، نمازکسوف آپؐ نے بہت طویل قرأت کے ساتھ اداکی تھی اس کا رکوع بھی بہت طویل کیاتھا، اس رکوع کے بارے میں متعدد روایتیں ہیں کسی روایت میں ہے کہ آپ نے دورکوع کیا کسی میں ہے کہ تین رکوع کئے اس سلسلے میں یہ توجیہ بھی کی گئی ہے کہ چونکہ رکوع بہت طویل تھا،اتنا طویل رکوع عموماً ہوتانہیں تھا، اورمجمع بڑاتھا توپیچھے سے کسی کو شبہ ہواہوگا، اس نے سراٹھاکر دیکھنے کی کوشش کی ہوگی، اس کے پیچھے اوراغل بغل والوں نے اسے اٹھتے دیکھ کر سمجھاہوگاکہ اب رکوع پورا ہوا، پھروہ لوگ بھی کھڑے ہوگئے اس طرح پیچھے تک کھڑے ہونے کاسلسلہ قائم ہوگیا مگر پہلے شخص نے جب دیکھا ہوگا کہ اگلی صفیں رکوع ہی میں ہیں ، تووہ بھی جھک گیا ہوگا،اسے جھکتے دیکھ کر سب لوگ جھک گئے ہوں گے، اس طرح