کرتے ، کبھی کتاب پر ، صاحب کتاب پر ، اس کے مضامین پر تبصرے کرتے ، قاری صاحب کو بعض شاعروں کے دواوین وکلیات حفظ تھے ، خاص طور سے دیوان غالب اور کلیات اقبال پر بہت عبور تھا، میں نے اقبال کو بہت پڑھاتھا ، اور ان کا کلام سمجھتا بھی تھا۔ مگر غالب کے باب میں مَیں عاجز ہوجاتاتھا، قاری صاحب کو ان دونوں کے اشعار یاد بھی بہت تھے اور سمجھتے بھی خوب تھے ، میرا حافظہ اشعار کے باب میں بہت کوتاہ ہے ، اور قاری صاحب کا حال یہ تھا کہ طویل طویل نظمیں ایک بار سن لیتے اور دوبارہ من وعن دہرادیتے ۔ غالب کے علاوہ اکبر ؔالہ آبادی، جوش ؔملیح آبادی،فیض احمد فیضؔ ،فراقؔ گورکھپوری کے اتنے اشعار انھیں یاد تھے کہ حیرت ہوتی ، اس وقت رات دن کا مشغلہ یہی مشترکہ مطالعۂ کتب تھا !
مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’ انڈیا ونس فریڈم ‘‘ کا ترجمہ ’’ہماری آزادی‘‘ انھیں صحبتوں میں متعدد بار پڑھی گئی ، اور اس کے علاوہ کیا کیا کتابیں پڑھیں گئیں ، چالیس بیالیس سال کے بعد کیا یاد رہیں گی؟
قاری صاحب کو مطالعۂ کتب کے بعد دو چیزوں کاا ور ذوق تھا ، ایک عمدہ چائے پینے کا ! دوسرے صبح یاشام کو چہل قدمی کا، چائے کی پتی عمدہ سے عمدہ رکھتے ، چائے کو دم دینے کے لئے ٹی۔کوزی رکھتے، اسٹوپ اور برتن صاف ستھرا رکھتے ۔ میں کتابیں پڑھنے کے ساتھ چائے کی خدمت انجام دیتا، مجھے خود چائے کا ذوق نہ تھا ، مگر قاری صاحب کی خدمت میں رہ کر کچھ ذوق آشنا ہوگیا تھا ، مجھے اسٹوپ چلانے ، اس پر برتن رکھنے اور پکانے سے قطعاً مناسبت نہ تھی ،دار العلوم میں میں زمانۂ تعلیم میں چار شرکائے دسترخوان کے ہمراہ مجھے کبھی کبھی طباخی کا عمل کرنا پڑتا تھا ، مگر اس طرح کہ ایک ساتھی مسلسل میرے ساتھ رہنمائی کے لئے ہوتا ، اس طرح اسٹوپ جلاؤ، اس طرح اور اتنا پانی رکھو ،اور اس طرح دیکھتے رہو، غرض مسلسل ہدایات کی روشنی میں مَیں کچھ پکاپاتا مگر بجز اسٹوپ جلانے کے اور کوئی سلیقہ نہیں آیا۔ قاری صاحب کے پاس رہ کر میں نے چائے بنانی سیکھی۔