نے انھیں تلاش کیا ، میری خوش بختی تھی کہ حافظ صاحب اس وقت دارا لعلوم کے دار الاقامہ میں مقیم نہ تھے ، دیوبند کے محلہ گدی واڑہ کی ایک عمارت ’’ ظہیر منزل ‘‘ میں فروکش تھے، یہ ایک دو منزلہ عمارت کئی کمروں پر مشتمل تھی ، ان کمروں میں دار العلوم کے طلبہ معمولی کرایہ دے کر رہتے تھے ،اسی کے ایک کمرے میں حافظ صاحب سے ملاقات ہوئی ۔
قاری صاحب سے مل کر خوشی ہوئی اور اطمینا ن بھی ہوا، قاری صاحب کو بھی مجھ سے وحشت نہیں ہوئی، اس کی مزید خوشی ہوئی ، یہاں سے ہم دونوں کی رفاقت کا آغاز ہوا۔
قاری صاحب ذہانت وذکاوت کے پیکر اور قوتِ حافظہ کے شاہکار تھے ،آنکھوں سے معذور ہونے کی و جہ سے انھیں مطالعہ کے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی ، اوقات درس میں درسگاہ کی حاضری ، اسباق یاد کرنے کے لئے کافی تھی ۔ قرآن حفظ کرنے کی یہ کیفیت تھی کہ ایک بار استاذ نے آیت آیت پڑھادی ، دوبارہ کسی ساتھی سے سن لیا ، پھر سہ بارہ پوچھنے کی ضرورت نہ دہرانے کی حاجت! حافظہ کے خزانے میں لفظ لفظ محفوظ ہوتا ، جب چاہتے پڑھ لیتے ، سنادیتے ، مجھ سے جب ملاقات ہوئی، تو غالباً حفظ کی تکمیل ہوچکی تھی ، تجوید پڑھ رہے تھے ، اوقات درس کے بعد وہ دوسری کتابوں کے مطالعے میں مصروف رہتے ، مجھ سے پہلے اس سلسلے میں کون معاون تھا ، اس کا علم مجھے نہیں ، مگر جب میں ان کی خدمت میں پہونچ گیا تو چونکہ بالکل فارغ تھا ، نہ تو سبق پڑھنا تھا نہ کسی کام کی کوئی پابندی تھی ، قاری صاحب درسگاہ سے فارغ ہوکر آتے تو میں ہمہ وقت ان کے ہمراہ ہوتا ، پڑھنے کا شوق مجھے بھی تھا اور قاری صاحب بھی مطالعہ کے شیدائی تھے ، میں پڑھتا اور قاری صاحب سنتے ، حافظہ میرا بھی اچھا تھا ، مگر اتنا نہیں جتنا ان کا تھا ، ذہین میں بھی کہلاتاتھا ، مگر قاری صاحب کی ذہانت کے پاسنگ بھی نہ تھا ۔
دیوبند میں کتب خانوں کی بہتات ہے ، ہم دونوں کسی کتب خانے پر جاتے، کتابوں کاانتخاب کرتے، خریدتے اور میں پڑھتا، وہ سنتے ، درمیان میں قاری صاحب نکتہ آفرینیاں