ضلع دربھنگہ، بہار ،ا ﷲ تعالیٰ انھیں سلامت باکرامت رکھے۔
ہوایہ کہ دار العلوم دیوبند پہونچنے کے بعد دربھنگوی طلبہ میں پہلے مولانا ابرار احمد (امام وخطیب جامع مسجد باقر گنج لہیریا سرائے ، دربھنگہ )سے میری شناسائی ہوئی ، انھوں نے مولانا بدر الحسن صاحب دربھنگوی سے ملاقات کرائی ، ان دونوں سے کبھی کبھی حافظ شبیر احمد صاحب کا تذکرہ سنتاتھا ، مگر وہ حفظ وتجوید کے طالب علم تھے اس لئے کوئی خاص توجہ نہیں ہوئی ، اسٹرائیک کا ہنگامہ جب شروع ہوا ،تو یاد نہیں کس تقریب سے مولانا ابرار احمدصاحب نے یا مولانا بدر الحسن صاحب نے قاری صاحب سے ملاقات کرائی ، میں ایک ایسے شخص کی زبان سے جو نابینا تھا ،اور درجۂ حفظ وتجوید کا طالب علم تھا ، بہترین ، شستہ شگفتہ اور فصیح وبلیغ نیز معلومات سے لبریز گفتگو سن کر چونک گیا ، میں بہت متاثر ہوا ، لیکن اس طوفان بلاکے اضطراب اور اس کی وحشت میں زیادہ دیر تک ملنے اور بار بار ملاقات کا موقع نہ پاسکا۔
پھر جو کچھ ہوا لکھ چکا ہوں ، اخراج ہوا، کچھ دنوں گھر پر رہا، پھر مدرسۃ الاصلاح سرائمیر میں داخلہ لیا، پھر طبیعت گھبرائی اور وہاں سے اکھڑا،تو چار وناچار دوبارہ دیوبند کی سرزمین پر گرا۔ دیوبند میں پٹھان پورے کی جامع مسجد مستقر قرار پائی ، مگر ذہن ودماغ جو کتاب اور علم کا جویاتھا اسے تلاش تھی ، اس آبِ زُلال کی ، جس سے علم کی پیاس کی تسکین ہو ، دار العلوم میں داخل ہونا اور اس کی درسگاہوں سے فیضیاب ہونا ممکن نہ تھا ، اساتذۂ دار العلوم کو ہم گنہگاروں سے جو وحشت ہوگئی تھی وہ سد سکندری بن کر استفادہ سے مانع بنی ہوئی تھی، دارالعلوم کے طلبہ بھی خوفزدہ تھے کہ ہم لوگوں سے ملاقات کا جرم ثابت ہوگیا تو ان کے لئے تازہ خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، پرانے شناسا نگاہ بچالینے میں عافیت سمجھتے ، چند روز بے کاری میں اِدھر اُدھر آوارہ گردی کرتارہا ، مگر اس کا بھی ذوق نہ تھا ، آوارہ گردی بھی فاقہ مستی بھی ، اپنوں کا اعراض بھی غیروں کی شماتت بھی ، ایک عجیب کش مکش میں جان مبتلا تھی ، اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا ہے کہ از خود یا کسی کے توجہ دلانے سے مجھے حافظ شبیر احمد صاحب یاد آئے ، میں