گی۔ ایک صاف گو سوانح نگار تو لوگوں کی تعریف وتوصیف یا تنقید وتبصرہ بلکہ تنقیص سے بھی بے نیاز ہوکر اپنی ذات پر جو کچھ گزرا ہے بے کم وکاست بیان کردیتا ہے تاکہ پڑھنے والے اس کے مثبت ومنفی پہلو سامنے رکھ کر اس سے سبق لیں اور عبرت حاصل کریں ، اس کی مثال میں ادیب شہیر مولانا عبد الماجد دریابادی کی آپ بیتی کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔
آپ بیتی لکھنے والوں میں ہر قسم کے افراد ہوتے ہیں ، وہ بھی ہیں جو پستی سے بلندی پر پہونچے ، وہ بھی جنھوں نے میدان سیاست کو اپنی جولان گاہ بنایا اور اسی راہ سے ترقی وشہرت کے بام عروج پر پہونچے،وہ بھی ہیں جن پر دین ومذہب کا رنگ غالب ہے، وہ بھی ہیں جو ایوان اقتدار سے وابستہ رہے ، وہ بھی ہیں جو بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائزرہے ،اس میں علماء کرام اور مشائخ طریقت بھی ہیں ، اس طرح خود اردو زبان میں جو دیگر زبانوں کے مقابلہ میں ابھی نسبتاً کم عمر ہے مختلف النوع افراد کی سیکڑوں آپ بیتیاں موجود ہیں ۔ پڑھنے والوں کا اپنا اپنا ذوق اور اپنی اپنی پسند ہوتی ہے ، کسی کو سیاسی افراد کی سوانح پڑھنے میں لطف آتا ہے ، تو کسی کو ادباوشعراکی آپ بیتیوں سے دلچسپی ہوتی ہے ، تو کسی کوعلماء ومشائخ کی خودنوشت سوانح سے رغبت ہوتی ہے، جیسا ذوق ہو ویسی ہی ترجیح اور پسند بھی ہوتی ہے ، ہر آپ بیتی کا اپنا ایک رنگ، انداز اور اسلوب ہوتا ہے۔
اگر ہم کسی عظیم ہستی اور مشہور شخصیت کے مکمل تعارف ، اس کے مزاج ونظریہ اور پسند ورجحان کے بارے میں جاننا چاہیں تو خود نوشت سوانح اس کا ایک بہترین ذریعہ ہے ، اس لئے کہ اپنی ذات کی معرفت لکھنے والے کو جتنی ہوگی کسی دوسرے کے بیان سے وہ بات حاصل نہیں ہوسکتی ، اس لئے آپ بیتیوں کی ہمہ گیر افادیت ایک مسلم چیزہے جس سے انکار مشکل ہے۔ یہ آپ بیتیاں شخصیت کو بنانے ، کردار کو سنوارنے اور زندگی کی راہ متعین کرنے میں اور کسی کو اسوہ ونمونہ بناکر زندگی کا سفر طے کرنے میں بہت معاون ہوتی ہیں ۔
لیکن آپ بیتی لکھنا ہرایک کا کام نہیں ، اس سنگلاخ وادی میں وہی شخص قدم رکھے جس کے ضمیر وخمیر میں راست گوئی وراستبازی رچ بس گئی ہو، جس کی زندگی میں شہرت وریا