اس وقت حضرت مہتمم صاحب حکیم الاسلام قاری محمدطیب صاحب علیہ الرحمہ دیوبند تشریف لاچکے تھے،دوسرے دن انھوں نے مطبخ کے ملازمین کو حسب معمول کھانا پکانے کے لئے بھیجا ،یہ مہتمم صاحب کی شرافت تھی ورنہ دووقت مطبخ کو اوربند کردیتے تو طلبہ منتشر ہوجاتے، ان سب کارروائیوں کے لئے خفیہ ہدایات انھیں بزرگ طالب علم کے ذریعے سے پرچوں پرالٹے ہاتھ سے لکھی ہوئی مل رہی تھیں ، سوفی صد یقین تھا کہ فلاں استاذ کی جانب سے یہ ہدایات آرہی ہیں ۔
فوری طور پر مجلس شوریٰ کی ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی ،حضرات ارکان بہت عجلت میں تشریف لائے، بچوں کی نادانی تھی کہ وہ اسے اپنا اوردارالعلوم کامسئلہ سمجھ رہے تھے،حالانکہ اب یہ پوری ملت اسلامیہ ہند کا مسئلہ بن چکاتھا، مجلس شوریٰ بیٹھی توطلبہ نے اپنے مطالبات کی لمبی چوڑی فہرست پیش کردی،لیکن صورت حال ایسی ہوچکی تھی کہ مطالبات کا مسئلہ توبعد میں آتا پہلے اسٹرائیک ختم ہونی ضروری تھی اورطلبہ بضد تھے،کہ مطالبات پورے ہونے کا اعلان ہوتب تحریک واپس ہوگی،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مہتمم صاحب اورارکان شوریٰ نے بہت تحمل سے کام لیا طلبہ کو اپنا بچہ سمجھ کر انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے، مگر اس وقت وہ حال تھاکہ ؎
میں اسے سمجھوں ہوں دشمن جو مجھے سمجھائے ہیں
جب حلم وتحمل کاپیمانہ لبریز ہوگیاتوبالآخر انتظامیہ نے پولیس کوبلایا اورمدرسہ کو طلبہ سے بزور و جبر خالی کرادیااس وقت پولیس نے طلبہ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی اورنہ طلبہ ہی پولیس سے الجھے ، پولیس کے آجانے کے بعد ہم لوگوں کواندیشہ ہواکہ اب معاملہ اورنہ بگڑجائے اس لئے طلبہ کو عام ہدایت کی گئی کہ اپناجوسامان لے سکتے ہوں لے کر خاموشی سے نکل جائیں ،لیکن نکل کرجائیں کہاں ؟یہ سوال طلبہ کی قیادت کے لئے ایک بڑاامتحان تھا مشورے کے بعد اعلان کیاگیاکہ سب طلبہ عیدگاہ میں جمع ہوجائیں ظہر کے بعدکا وقت تھا عصرکی نمازعیدگاہ میں پڑھی گئی، عیدگاہ گھاسوں سے بھری ہوئی تھی طلبہ نے اسے صاف کیا