مغرب بھی وہیں پڑھی گئی، اب مسئلہ رات کے کھانے کا تھا ایک ہزار سے دوتین سوزائد طلبہ اس وقت رہے ہوں گے، اہل قصبہ نے تعاون کیاچاول اوردال منگواکر کھچڑی ابالی گئی،اس میں رات کے بارہ بج گئے،عیدگاہ سے منتقل ہوکر طلبہ ایک محلہ میں چلے گئے ،کھاناوہیں پکاتھا کھانے میں رات کے تین بج گئے۔
یہی انتظام دوسرے دن دوپہر کو بھی ہوا،اب طلبہ منتشرہونے لگے دارالعلوم کی جانب سے اعلان ہواکہ جو طلبہ گھر جاناچاہیں انھیں سہولت دی جائے گی ،اب یہ فوج ٹوٹ چکی تھی، قیادت نے شکست مان لی تھی ،بہت تیزی سے طلبہ جانے لگے پھرہم گنے چنے لوگ پٹھان پورے کی جامع مسجد میں چلے گئے۔اس وقت بھی سو سے زائد طلبہ تھے بالآخر کوئی صورت نہ بن پڑی تو ہم لوگ بھی اپنے اپنے وطن کو روانہ ہوگئے ،اب میرے سامنے اورمولوی طاہر کے سامنے مسئلہ تھا کہ ہم کہاں جائیں ؟ جانے کیاسوچاگیاکہ ہم دونوں مئو مدرسہ مفتاح العلوم چلے گئے، شام کو پہونچے رات وہاں گزاری، طلبہ سے تعارف ہواانھوں نے بڑی عزت کی لیکن صبح کو حضرت مولاناعبداللطیف صاحب علیہ الرحمہ نے ہم دونوں کو طلب کرکے سرزنش کی ،اورمدرسے سے چلے جانے کا حکم دیا اللہ جانے توقع کی کون سی کرن تھی جو وہاں لے گئی تھی وہاں سے جب مایوسی ہوئی تومولوی طاہر اپنے گھر کیلئے روانہ ہوگئے اورمیں اپنے گھر چلاگیا۔
گاؤں پہونچا تویہاں کارنگ بدلاہواپایا،ہرطرف سے ملامت کے تیر ،تحقیر کے بادل ،نگاہیں گرم ،لوگ بات کرنے کے روادار نہیں ، ایک ہفتہ سے زائد حکومت کی تھی، اب غلاموں سے بدتر حالت تھی، سب کی نظرمیں مجرم !گوبزعم خود ہم نے کوئی کارنامہ انجام دیاتھا میں ایک دودن رہ کر اپنے محبوب مدرسہ احیاء العلوم چلاگیا،وہاں ناظم صاحب کو پتہ چلا تومدرسہ میں آنے کی ممانعت کردی، میراکچھ سامان ایک ٹرنک میں تھا ،وہ ٹرنک مدرسہ کے باہر میری عدم موجود گی میں ڈلوادیا میرے ایک رشتہ دار تھے وہ اسے اپنے گھر لے گئے اورمجھے اس کی اطلاع کی، میراآناجانا مدرسہ میں توبند ہوگیا مگر قصبہ میں اورجامع مسجد میں