تھا،یہ صدارت کا عہدہ میرے لئے مصیبت بن گیا، تعلیمی مقاطعہ چلتارہا، سنیچر کادن گزرا ، اتوار کواچانک اس تحریک نے ایک خطرناک موڑلیا،اس کی تفصیل یہ ہے کہ اتوار کے روزشام کو مغرب کی نمازکے بعد دارالعلوم کے چندبڑے اساتذہ نے دارالعلوم کی مسجد میں طلبہ کو روکا اورانھیں اس ہڑبونگ کے متعلق کچھ سمجھاناچاہا کچھ طلبہ بیٹھ بھی گئے، مگر اسٹرائیک کے شعلہ بار مقررین کویہ بات ناگوارہوئی،انھوں نے مسجدمیں جاکر اساتذہ کے بالمقابل تقریرشروع کردی، اس میں طلبہ کو فوراًیہاں سے چلے جانے کا حکم دیا، طلبہ نے یکایک مسجد خالی کردی اوراساتذہ خفیف ہوکر وہاں سے نکل گئے اس واقعہ کے بعدطلبہ میں ایک نیا اشتعال پیدہوگیا، ایک جوشیلے طالب علم نے مائک پراعلان کردیا کہ جواساتذہ دارالعلوم میں مقیم ہیں وہ دارالعلوم خالی کردیں ،اس سے بڑاہیجان پیداہوگیا،خود طلبہ اس ہنگامہ کے مخالف ہونے لگے ،معاملہ قابو سے باہر ہوگیا پھر کسی نے افواہ اڑادی کہ فلاں فلاں طالب علم اسٹرائیک کی مخالفت کررہے ہیں اوروہ اپنے کمرے میں لاٹھی ڈنڈے جمع کررہے ہیں ،یہ افواہ پھیلی ہی تھی کہ مقررین نے طلبہ کارخ ان مخالفین کی طرف پھیردیا،سارے طلبہ دوڑپڑے افواہ محض افواہ تھی حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا،وہ مخالفین ہاتھ آگئے توانھیں بعض کمروں محصورمیں کردیا،پھر افواہ گرم ہوئی کہ باہرسے لوگ بلائے گئے ہیں وہ دارالعلوم میں داخل ہوکر اس تحریک کوفیل کریں گے، بس یہ سنناتھاکہ دارالعلوم کے تمام گیٹ بند کرادئیے گئے،اور دربانوں کی چھٹی کردی گئی، ان کی جگہ پر طلبہ کی ڈیوٹی لگادی گئی،دوشنبہ کے دن مطبخ کے ملازمین نہیں آئے،اتنی بڑی تعداد کوکھاناکھلانا ایک مسئلہ تھا ہم لوگوں نے طلبہ سے چندہ کیا،اورچاول دال بازار سے منگواکر کھچڑی پکوائی،اوردوپہر کا کھاناشام کو تین چاربجے بقدرضرورت طلبہ کو ملا، یہ غلط ہے کہ طلبہ نے مدرسہ کی املاک کو نقصان پہونچایا، اگریہی کرناہوتاتو تالاتوڑکر غلہ نکالا جاسکتاتھا،مگر اس کی طرف طلبہ نے رخ بھی نہیں کیا۔ طلبہ سے چندہ کیاگیا، اوربازار سے غلہ منگوایاگیا،اورالبتہ مدرسہ کی لکڑی اوربرتن باہر موجود تھے انھیں استعمال کیا گیا، چولھااستعمال کیاگیا۔