تشریف لائیں گے توکوئی بات ہوگی،ہم لوگ قدرے مایوس ہوکر وہاں سے لوٹے،میں رات بھر جاگاتھا، یہاں سے فارغ ہوتے ہی جاکرسوگیا۔
دس بجے کے بعد اچانک ایک طالب علم نے مجھے جھنجھوڑکراٹھادیا،میں کبیدہ خاطر ہوکربیدار ہوا، معلوم ہواکہ مولوی طاہر بلارہے ہیں ،میں ہاتھ منھ دھوکر نکلا، تووہ مل گئے،مجھ سے کہنے لگے چلو، میں نے کہاکہاں ؟انھوں نے کوئی جواب نہ دیابس چلنے لگے میں بھی ایک ہم سفر کی طرح چلنے لگا،پھر راہ میں ایک بزرگ طالب علم مل گئے ، ہم تینوں مل کر دارالعلوم سے دور ایک مسجد میں بیٹھے،ان بزرگ طالب علم نے کہاکہ تم نے تحریک واپس لے کر بڑی غلطی کی،یہی تو تحریک کا وقت ہے،اس وقت یہ تحریک سرد پڑگئی، توساراکام خراب ہوجائے گا، میر ی سمجھ میں نہیں آیاکہ کون سا کام خراب ہوجائے گاوہ برابر اصرار کرتے رہے، اورمیں ہکابکا رہا،مولوی طاہر بھی کچھ بول نہیں پارہے تھے، آخر میں انھوں نے دیکھاکہ یہ دونوں آمادہ نہیں ہورہے ہیں توانھوں نے ایک استاد کاحوالہ دیاکہ ان کا حکم ہے،میں توان کا نمائندہ ہوں ، میری سمجھ میں تب بھی نہیں آیا،مگر مولوی طاہرصاحب نے آمادگی ظاہر کی،ہم دونوں وہاں سے اٹھے،تومولوی طاہر صاحب مجھے لے کر بازار چلے لاوڈ اسپیکر والے سے کہا کہ جمعہ کے بعد لاؤڈ اسپیکر دارجدیدمیں لاکرلگادو،یہ کہہ کرہم دونوں مدرسہ واپس آگئے ،میں نہا دھو کر نمازِجمعہ پڑھنے جامع مسجد چلاگیا،اورارادہ کیاکہ عصرتک واپس نہ آؤں گا،میں جمعہ پڑھ کر وہیں ٹھہرگیا،اچانک کچھ طلبہ مجھے تلاش کرتے ہوئے آگئے،اورمجھے سمجھابجھاکر مدرسے میں لے آئے،یہاں دھواں دھار تقریرہورہی تھی،اسٹرائیک کااعلان ہورہاتھاکہ کل سے بالکل تعلیمی مقاطعہ ہے،جب تک ہمارے مطالبات پورے نہ ہوں گے، میں دم بخودتھا، مگر حالات ایسے تھے کہ مجھے بھی تائیدکرنی ہی تھی اورمیں توصدرتھا،مجھے آگے آناہی تھا،عصر کے بعد طلبہ نے دفتر تعلیمات سے تمام درسگاہوں کی چابیاں لے لیں ،تاکہ صبح کو کوئی درسگاہ نہ کھلے،اب باقاعدہ اسٹرائیک کا آغازہوگیا،اس کے سربراہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ تھے، ان کی تقریروں نے بڑی مقبولیت پائی اورطلبہ ان کے اشاروں پرچلنے لگے میں بھی مجبور