کرر اپنی ران پر ہاتھ مارمارکر برابر کہتے رہے ،میں ٹھہرانادان! اور پُرجوش عقیدت مند! میں نے کہا میں جاتاہوں میں گیا، توطلبہ بڑی تعدادمیں موجودتھے ایک صاحب اسٹیج پر تقریرکررہے تھے …دارجدید کے صحن میں ایک اسٹیج مستقل بناہواتھا، غلہ اسکیم کا جلسہ ہوتا، توعلماء کی اسی پر تقریریں ہوتیں ……میں پہونچاتومیں نے تقریرشروع کردی ،میں نے جمعیۃ الطلبہ کے قیام پر زوردیا،اس وقت طلبہ کی انجمن کے نقصانات گوکہ میں دیکھ چکا تھا مگر بچپن کی نادانی میں اسے نقصان نہ سمجھتاتھا،یہ تقریر اتنی پرجوش تھی کہ تمام موجود طلبہ نے اتفاق رائے سے جمعیۃ کے قیام کومنظور کرلیا،اسی وقت سب طلبہ کی طرف سے اصرارہواکہ تم ہی جمعیۃ کی صدارت کو قبول کرو،میں نے معذرت کی کہ جمعیۃ کے دستورمیں ہے کہ صدر کم ازکم ایک سال قدیم ہوناچاہئے،اورمیراتویہ پہلاسال ہے مگر اس وقت سب نے اس سے مجھ کومستثنیٰ قرار دے کر باتفاق رائے مجھے صدر بنادیا تھا،میری تقریرکے بعد مولوی طاہر حسین گیاوی اسٹیج پرآئے،ان کی برجستہ اور پرجوش تقریرنے اس مجمع کو ایک تحریک کی شکل دیدی ، اور پھر اس تحریک نے ایک خطرناک شکل اختیار کرلی،وہ یہ کہ اب جمعیۃ کے قیام کا مسئلہ پیچھے چلاگیا، اورنائب مہتمم مولانامعراج الحق صاحب کے خلاف یہ ایک بغاوت کی تحریک بن گئی، ابتداء ً میں اسے بھانپ نہ سکا،مگر ان کی تقریر کے بعد بعض اور تقریریں ہوئیں ، جن میں سارازور نائب مہتمم کے خلاف تھا،میں نے چاہاکہ پہلے جمعیۃ کا باقاعدہ قیام عمل میں آجائے،اس کے ممبران وغیرہ متعین ہوجائیں ،پھر کوئی دوسرا کام چھیڑاجائے، چنانچہ اخیرمیں میں نے عرض کیاکہ فی الحال اس کے ممبران کے انتخاب کے ضرورت ہے اس کے لئے تمام اضلاع اورصوبوں سے منتخب طلبہ کی مجلس شوریٰ بن جائے، چنانچہ اسی وقت غالباً اٹھائیس ممبران کے نام منظور ہوگئے، اعلان ہواکہ سب طلبہ آرام کریں ،یہ ممبران سب طلبہ کے نمائندے ہیں آج رات میٹنگ کرکے کوئی لائحہ عمل طے کرلیاجائے گا،یہ رات جمعہ کی تھی۔
یہ ممبران دارالعلوم کے باہر ایک مسجد میں اکٹھا ہوئے،مشورے ہونے لگے، درمیان میں یہ بات کسی نے زوروشور سے اٹھائی کہ یہاں کی کوئی بات دارالاہتمام میں علیحدہ سے نہ