تعلیم کی گاڑی چلتی رہی،اس وقت دارالعلوم میں تین امتحان ہواکرتے تھے،سہ ماہی ،شش ماہی اورسالانہ، سہ ماہی امتحان بخیریت گزرگیا،ششماہی امتحان قریب آگیاتھا طلبہ کی حاضری اسباق میں حاضری پکارنے تک ہوتی ،پڑھنے کا ذوق وشوق بڑی حد تک مردہ تھا امتحان ششماہی جوں جوں قریب آرہاتھا،طلبہ میں ٹورنامنٹ اورمیچ کا ذوق بڑھ رہاتھا ،صدر گیٹ پر ہرروز متعدد اعلانات رنگ برنگ کے والی وال ،فٹ بال وغیرہ کے مقابلے کے نکلتے رہتے ،مجھے اس سے بڑارنج ہوتا،ایک دن طلبہ کے ایک مجمع میں میں نے کہاکہ جب کسی قوم پر زوال آتاہے تو کام کے وقت میں اسے لہوولعب کا شوق چِرّاتاہے، اس پربعض طلبہ مجھ پر بہت ناراض ہوئے اور بڑی دیر تک بحث ومباحثہ کرتے رہے۔
جب امتحان بالکل سرپر آگیا تو شورہواکہ فلاں مدراسی تکرار کیلئے کشمیر سے آگئے ہیں ان کا تکرار بہت مشہور تھا ،وہ آئے اورطلبہ میں ہل چل مچ گئی، طلبہ ان سے وقت لینے لگے کسی کو عشاء کے بعد کسی جماعت کو بارہ بجے رات میں ،کسی کو بھور میں ،وہ وقت دیتے اورطلبہ دیوانہ وار ان کے پیچھے دوڑتے ،مجھے حیرت ہوتی کہ یہ طلبہ اگر اساتذہ کے سبق میں اسی ذوق وشوق کے ساتھ حاضری دیتے تو آج اس کی نوبت نہ آتی،ایک دن میں میبذی کے تکرار میں ان کی مجلس میں شریک ہوا،تو محسوس ہواکہ یہ صاحب تکرار میں بہت پھکڑپن کرتے ہیں ، کسی پر جملہ کس دیا، کسی کی ٹوپی اچھال دی ، اساتذہ دارالعلوم کو خاص طورسے نشانہ بناتے ، ان خرافات کی وجہ سے طلبہ خوب ہنستے اوران کی مقبولیت ہوتی، اسی میں مسائل بھی سمجھاتے جاتے، میں جب پہونچا تواساتذہ کاخاکہ اڑارہے تھے ، اورکسی عبارت کا مطلب سمجھارہے تھے،اورطلبہ جھوم رہے تھے مگر میرے خیال میں تووہ عبارت اورمطلب کی تقریر بالکل غلط کررہے تھے ،میں تھوڑی دیر میں اٹھ کرچلاآیااور اپنے تکرارمیں میں نے اس کی تردیدکی۔
وہ اپنے ان تکراروں سے اوراپنے پھکڑ پن سے طلبہ کا مزاج خراب کردیتے تھے اسی لئے دارالعلوم کے اساتذہ اوراہل انتظام ان کے آنے کو اوران کے تکرارکوپسند نہ کرتے تھے، معلوم ہواکہ دیوبند میں ایک مکان انھوں نے مستقل کرایہ پر لے رکھاہے ا ورہر سہ ماہی