ضرورت پیش نہیں آئی تھی ، مگر وہ سیڑھی پر چڑھ کر ٹھیک اسی کتاب کو نکال کر لے آئے ۔
دارالعلوم دیوبندسے واپسی کے بعد پھر ان سے ملاقات کی نوبت بہت کم آئی ، (۱۹۹۴ء میں )دارالعلوم حاضری ہوئی ، اور کتب خانہ میں جانا ہوا ، تو کتب خانہ کا وہ بوڑھا عاشق ملا ۔ دارالمطالعہ کی جگہ اب تبدیل ہوگئی ہے ۔ مولوی محمد حنیف صاحب بھی تھک ہار چکے تھے ، کمزوری کا ان پر غلبہ تھا ۔ حافظہ کی گرفت بھی ڈھیلی ہوگئی تھی ۔ ان کے ساتھ ایک معاون لگادیاگیا تھا ۔ تعارف کے بعد پہچان گئے ۔ اور پھر وہ دیرتک پچھلے دور کو یاد کرتے رہے ، اور کتب خانہ اور اس کے متعلقات پر باتیں کرتے رہے ، لیکن اب باتوں میں کراراپن نہ تھا ۔ اضمحلال جھلکتا تھا ، بہت سی باتیں حافظہ سے محو بھی ہوچکی تھیں ۔ غالباً اسّی سے زائد عمر بھی ہوچکی تھی ۔
بالآخر کتابوں کی خدمت کرتے کرتے اس جاں نثار اور باوفابوڑھے نے ۱۹؍ ذی الحجہ ۱۴۱۶ھ کو زندگی کے سفر سے کمر کھول دی ، اور رب کریم کے حضور بامید مغفرت حاضری دیدی ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ، ان کی تُربت کو ٹھنڈا رکھے اور ان کے احسانات کا اجر عطافرمائے ۔ (۱)
٭٭٭٭٭
(۱) مولوی محمد حنیف صاحب دیوبندی ؒپر تفصیلی مضمون دیکھئے مولف کی کتاب ’’ کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ میں ،ص:۲۸۶(ضیاء الحق خیرآبادی)