رہتے تو اپنے پچھلے تجربات بھی بتاتے ، ان کی باتوں سے مطالعہ کا شوق بڑھتا ، اور بڑی ہمت ملتی ، حوصلہ بیدار ہوتا ۔
ایک روز بارہ بجنے کے بعد بھی میں کتب خانہ میں بیٹھا رہ گیا ، وہ بھی کسی کام میں مشغول تھے ۔ کچھ دیر کے بعد جب فارغ ہوئے تو دروازہ بند کرنے لگے ، پھر انھیں کچھ خیال آیا تو پلٹ کر دیکھا کہ میں ابھی تک کتاب دیکھے جارہاہوں ۔ ڈانٹنے لگے کہ تمہاری وجہ سے کیا میں یہیں پڑارہوں ، چلو باہر چلو ، میں تو دروازہ بند کردئے ہوتا ، مگر تم یاد آگئے پھر مسکرانے لگے ، اور فرمایا کہ میں کتب خانے میں اس کام پر ۳۰؍ سال سے ہوں ، اس تیس سال کے عرصہ میں کتب خانے کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والے تین طالب علم ملے ، اور اتفاق ہے کہ تینوں اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں ، بلکہ دو توبھائی تھے ، ایک امانت اﷲ ، دوسرے نعمت اﷲ !اور تیسرے تم ہو ، اس وقت ہم تینوں کا ضلع اعظم گڈھ تھا ، اب مئو ضلع میں آگئے ہیں ۔
مجھے ان کی بات سے بے حد مسرت ہوئی ، اور بڑا حوصلہ ملا ۔ اور مطالعہ کے شوق میں مزید مہمیز ہوئی ۔ اس طرح وہ پڑھنے والے طالب علم کا دل بڑھایا کرتے تھے ، اس کے بعد اکثر وہ میری رعایت میں وقت ختم ہونے کے بعد بھی بیٹھے رہتے ۔ جب زیادہ دیر ہونے لگتی ، تو حکماً اٹھا دیتے ،
مولوی محمد حنیف صاحب مرحوم کو دارالعلوم کے کتب خانے سے عشق تھا ، وہ ہر وقت کتابوں کی دیکھ بھال کیا کرتے ، انھیں جھاڑتے پونچھتے رہتے ، اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ ان کے لوحِ دماغ پر ہرہر کتاب کا نام ثبت تھا ، اور یہ کہ وہ کس جگہ رکھی ہے ، اس کی جلد کا رنگ کیا ہے ، کتنی ضخیم ہے ، جہاں کسی نے کوئی کتاب طلب کی ، وہ نہ فن پوچھتے ، نہ کتاب کا نمبر پوچھتے ، سیدھے متعلقہ الماری کے پاس پہونچتے ، اور ان کی انگلیاں ٹھیک اسی کتاب پر پڑتیں جو مطلوب ہوتی ، اس میں کبھی تخلف نہیں دیکھا ، جب میں نے ان سے شرح مطالع طلب کی ، اور حجت وتکرار کے بعد وہ دینے پر آمادہ ہوئے ، تو حالانکہ انھیں اس کتاب کے نکالنے کی کبھی