روک دیتے اور اگر اتفاق سے میں خود کبھی کسی سے گفتگو شروع کردیتا ،تو دوچار منٹ برداشت کرتے ، لیکن اس کے بعد ان کی ناصحانہ تنبیہ شروع ہوجاتی ۔
میں جس درجہ میں پڑھتا تھا اس میں صرف تین کتابیں زیر درس تھیں ، صبح کے ابتدائی دوگھنٹوں میں جلالین شریف ہوتی ، تیسرے گھنٹے میں میبذی ہوتی ، چوتھا گھنٹہ خالی تھا ، اس میں خوشخطی کی تمرین کیاکرتا ، شام کے دونوں گھنٹے ہدایہ اخیرین کے لئے تھے ۔
جلالین شریف حضرت مولانا محمد سالم صاحب پڑھاتے تھے ، ان کا دستور تھا کہ وقت ہوتے ہی پانچ منٹ کے اندر دارالتفسیر میں تشریف لے آتے تھے ، اگر پانچ منٹ گزر گئے اور مولانا نہیں پہونچے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اب تشریف نہیں لائیں گے ۔ کہیں سفر میں گئے ہوں گے یا اور کوئی ضروری مشغولیت ہوگی ، اس کے بعد طلبہ کچھ تو وہیں درسگاہ میں مذاکرہ ومطالعہ میں لگ جاتے ، کچھ لوٹ آتے ، میں سیدھا بھاگ کر کتب خانہ میں پہونچ جاتا ، میبذی حضرت مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری کی خدمت میں پڑھتا تھا ۔ وہاں ناغہ کا کوئی سوال نہ تھا ، خوشخطی کی تمرین بعض دوستوں کی ترغیب سے اختیار کرلی تھی ، مگر مجھے اس سے کوئی مناسبت نہ تھی ، کچھ دنوں تک اس کو نباہتا رہا ، لیکن چند دنوں کے بعد اپنے استاذ محترم حضرت منشی امتیاز احمد صاحب علیہ الرحمہ سے اجازت لے کر اس شعبہ سے اپنا نام میں نے خارج کرالیا ، اب یہ گھنٹہ کتب خانہ کیلئے مستقل ہوگیا ۔
شام کے دونوں گھنٹوں میں ہدایہ اخیرین کا درس تھا ۔ حضرت مولانا اختر حسین صاحب علیہ الرحمہ جو مدرسہ میں ’’میاں صاحب ‘‘ کے نام سے معروف تھے ، پڑھاتے تھے ، میاں صاحب نہایت متقی اور باخدا انسان تھے ، اس وقت وہ نائب ناظم تعلیمات تھے ، ان کے درس میں بڑی برکت تھی ، جتنا سبق کوئی دو گھنٹے میں پڑھاتا ، اس سے زیادہ وہ ایک گھنٹے میں پڑھاتے تھے ، چھٹی سے آدھ گھنٹہ پہلے ان کا سبق مکمل ہوجاتا ، میں اس وقت بھی بھاگ کر کتب خانہ پہونچ جاتا ۔ مولوی صاحب بھی منتظر ہی ہو تے ، میری کثرتِ حاضری کی وجہ سے وہ بہت مانوس ہوگئے تھے ، اور بڑی رعایت کرتے تھے ، کبھی کبھی باتیں بھی کرتے ، خوش