کیا ، مجھ سے دستخط لیا اور کتاب میرے حوالے کرکے نگرانی کرنے لگے کہ میں پڑھتا بھی ہوں ، یا صرف ورق گردانی کرتا ہوں ۔
یہ تھا مولوی صاحب مرحوم سے میرا پہلا سابقہ جو لڑائی سے شروع ہوا ،اور ان کی شفقت ومحبت تک پہونچا ۔
کسی طالب علم کو کوئی کتاب خود سے نکالنے نہیں دیتے ، طلبہ الماریوں کے قریب کھڑے ہوکر کتاب کے نام دیکھتے رہتے ، اور مولوی صاحب انھیں دیکھتے رہتے ، جہاں کسی کا ہاتھ کسی کتاب کی طرف بڑھتا ، وہ تڑپ کر اٹھتے اور ان کے پہونچنے سے پہلے ان کی آواز اس کے کانوں تک پہونچ جاتی ،ہاں ہاں کتاب کو ہاتھ نہ لگاؤ ، تمہیں کون سی کتاب چاہئے ، طلبہ ان کی اس ادا سے خوب واقف تھے ، اس لئے ہر طالب علم اپنے ہاتھ کو محتاط ہی رکھتا ، کیونکہ مولوی صاحب پھر دیر تک تنبیہ کرتے رہتے اور طالب علم خفیف ہوتا رہتا ، اگر ایسا وہ نہ کرتے ، تو کتب خانے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ۔
ابتداء ً میرے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا ، لیکن چونکہ میں روزانہ پابندی کے ساتھ حاضر ہوتا رہا ، اور بکثرت کتابیں ان سے طلب کرتا رہتا ، پہلے تو انھوں نے بیک وقت کئی کئی کتابیں مانگنے پر ٹوکا ، مگر جب دیکھا کہ اس لڑکے کی بے دماغی ان کے اصول وضوابط کی آہنی رکاوٹوں سے ہارنے والی نہیں ہے ، تو خود انھوں نے سِپر ڈال دی ، انھوں نے اس کے بعد مجھے خصوصی اجازت مرحمت فرمادی تھی ،کہ تم جو چاہو کتاب نکال سکتے ہو ، کچھ دنوں کے بعد رجسٹر میں درج کرانے کی پابندی بھی ہٹادی تھی ، مجھے دیکھ کر بعض اور طلبہ نے بھی جرأت کرنی چاہی ، لیکن انھوں نے تنبیہ کرکے اور سمجھا کر انھیں ایسا کرنے سے باز رکھا ، انھوں نے مہربانی فرماکر میرے لئے کتب خانے کا ایک گوشہ متعین کردیا تھا کہ میں وہیں بیٹھا کروں ، اس جگہ کسی کو بیٹھنے نہیں دیتے تھے ، وہ جگہ ایسی تھی کہ نوادرات کی الماریوں کی وجہ سے وہاں کچھ آڑ سی ہوگئی تھی ، کتب خانہ میں آنے جانے والوں کی نگاہ وہاں نہیں پڑتی تھی ، ایسے طالب علموں کو جو پڑھنے سے زیادہ گفتگو کے عادی تھے ۔ انھیں میرے پاس جانے سے