، اس موضوع پر درسی کتابوں کے علاوہ دوسری کتب کا بھی مطالعہ کیا کرتا تھا ۔ بالخصوص منطق کی حمایت ومخالفت میں جو مضامین اور کتابیں ملتیں انھیں ضرور پڑھتا ۔ علامہ شبلی نعمانیؒ کے مقالات کا وہ حصہ جومنطقی مباحث پر مشتمل ہے اسے باربار پڑھا ، انھوں نے اپنے مقالات میں علامہ قطب الدین رازی کی کتاب شرح مطالع کا ذکر بہت اہتمام سے کیا ہے ، نیز انھیں کے مقالات میں علامہ ابن تیمیہ ؒ کی کتاب ’’الرد علی المنطقیین‘‘ کا ذکر بھی پڑھا تھا ۔ مجھے ان دونوں کتابوں کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا ۔ مبارکپور کے کتب خانہ میں یہ دونوں کتابیں موجود نہ تھیں ، دارالعلوم کے کتب خانہ میں رسائی ہوئی تو فہرست میں یہ دونوں مل گئیں ، میں نے غایت شوق میں نگران کتب خانہ مولوی محمد حنیف صاحب سے کہا کہ ذرا شرح مطالع نکال دیجئے ، نام سنتے ہی ان کی پیشانی پر بل آگیا ، سر سے پاؤں تک مجھے دیکھا ، ایک مسکین اور شرمیلا طالب علم ، گردن میں پرانے طرز کا رومال لپیٹے ، بہت معمولی سوتی کرتا اور مِل کی بنی ہوئی چار خانے کی لنگی پہنے ، سر پر مئو والی مخصوص کشتی نما ٹوپی رکھے کھڑا ان سے شرح مطالع کی فرمائش کررہا تھا ۔ چہرے بشرے پر ذہانت کی پرچھائیاں بھی نہ تھیں ، عمر بھی اٹھارہ سال کے قریب پہونچی تھی، انھوں نے کڑک کر پوچھا کیا پڑھتے ہو ؟ جلالین کی جماعت میں داخلہ ہوا ہے ، اچھا جدید ہو ؟ جی ہاں ۔ منطق کی کون سی کتاب پڑھی ہے ؟ سلم اور ملا حسن پڑھی ہے ، قاضی مبارک اور حمد اﷲ بھی پڑھ چکے ہو ؟ جی نہیں ، پھر شرح مطالع کیا سمجھو گے ؟ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے ، میں گھبرا گیا ، میں نے سوچا یہ موقع ہاتھ سے جاناچاہتا ہے ، میں نے ہمت کی ، اور لپک کر ان سے کہا کہ صاحب کتاب دیدیجئے ، انھوں نے پھر ڈانٹا کہ سمجھو گے ؟ اب میں نے بھی تیور بدلے ، آپ کو اس سے کیا مطلب ؟ آپ کتاب دیجئے ، پہلے وہ گرم ہوئے ، لیکن پھر نرم پڑگئے ، اور مجھے سمجھانے لگے ، دیر تک سمجھاتے رہے ، مگر میری آتش شوق تیز تر ہوتی رہی ، بالآخر انھوں نے سپر ڈال دی ، کہنے لگے میں عرصۂ دراز سے یہاں کام کررہاہوں ، مگر کسی نے یہ کتاب نہیں مانگی ، اچھا لاتا ہوں ، یہ کہہ کروہ سیڑھی سے اوپر ریلنگ پر چڑھ گئے اور کتاب نکال کر لے آئے ، اسے خوب جھاڑا پونچھا ، رجسٹر پر درج