اس کتب خانہ کے ناظم مولانا سلطان الحق صاحب بجنوری علیہ الرحمہ تھے، جو اپنی فراست ودانائی اور اپنے تن وتوش دونوں اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتے تھے ، ان سے سابقہ نہیں پڑا ، میں اس کتب خانہ کے ایک خاص شعبہ ’’ شعبۂ دار المطالعہ‘‘ میں حاضر ہواتھا ، اس وقت اس شعبہ کے نگراں ایک بزرگ مولوی محمد حنیف صاحب مرحوم تھے ، مرحوم اس وقت بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہوچکے تھے ، مولوی صاحب ایک مشت استخواں تھے ، لاغر بدن ، پستہ قد ، آنکھوں پر باریک کمانی کی عینک ، آواز مہین مگر کراری ، بڑھاپا بال پر نمایاں تھا ، مگر متحرک، جہاں کسی نے کوئی کتاب مانگی ، اگر وہ اس سے پہلے سے واقف ہیں ، تو بجلی کی سی تیزی سے اٹھتے اور مطلوبہ کتاب بلاتامل نکال کر دیدیتے، اور اگر اس سے واقف نہیں ہیں توالجھتے ، اس کا مبلغ علم معلوم کرتے ، جدید ہو یا قدیم ، پوچھتے ۔ انھیں اس کے معیار سے اونچی کتاب معلوم ہوتی تو اسے مطالعہ کی ترتیب بتاتے کہ پہلے فلاں فلاں کتاب پڑھو ، پھر اسے پڑھنا۔
یہ دار المطالعہ ان دنوں صبح کے اوقات تعلیم میں بارہ بجے تک اور بعد نماز ظہر اذان عصر تک کھلا رہتا تھا ، طلبہ ان اوقات میں عموماً درس میں مشغول ہوتے تھے ، وہی طلبہ دار المطالعہ میں آتے تھے ، جن کا گھنٹہ کسی اتفاقی وجہ سے خالی ہوگیا ہو، اس وقت کچھ شوقین طلبہ مطالعہ کے لئے اس شعبہ میں جمع ہوجاتے تھے ۔
میں دار المطالعہ میں پہونچا توکتابوں کا ہجوم دیکھ کر خوشی سے میری طبیعت جھوم اٹھی، کہ یہاں جنونِ مطالعہ کی تسکین کا سامان موجود ہے ، میں اس میں لگی ہوئی فہرست (کیٹلاگ) دیکھنے لگا ۔ اور گھنٹوں کھڑا دیکھتا رہا ۔ میں چاہتا تھا کہ ایک نظر کتابوں کے نام پر پڑجائے ، پھر مطالعہ کیلئے کسی کتاب کا انتخاب کروں ۔
دارالعلوم دیوبند جانے سے پہلے جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں پڑھتا تھا ، وہاں تعلیمی مضامین میں مجھے گوکہ کچھ زیادہ صلاحیت نہ تھی ۔ لیکن ادب عربی کے بعد منطق سے خصوصی دلچسپی تھی ، میرے ذہن ودماغ میں منطق کے مباحث عموماً گردش کیا کرتے تھے