وہ یہاں نہیں ہے ، میرے گھر پر ہے
آپ کا گھر کہاں ہے؟
میں سنبھل کا ہوں ، مجھے اسعد اسرائیلی کہتے ہیں
پھر جماعت اسلامی کے موضوع پر دیر تک اس طالب علم سے گفتگو ہوتی رہی ، وہ کہہ رہا تھا کہ میں دین وشریعت کو مولانا مودودی کی تحریروں سے سمجھ سکا ہوں ، میں نے دریافت کیا کہ آپ کس درجہ کے طالب علم ہیں ؟ کہا کہ دورۂ حدیث میں ہوں ، میں نے کہا تعجب ہے ، آپ نے قرآن پڑھا ، اس سے دین نہیں سمجھا ، تفسیر پڑھی اس سے دین نہیں سمجھا ، حدیثیں پڑھیں اور پڑھ رہے ہیں ، ان سے دین کو نہیں سمجھا ، سمجھاتو کس سے سمجھا ، جو امت میں مختلف فیہ ہے ،جس کی شخصیت نزاعی ہے ، اﷲ جانے آپ نے کیا سمجھا ہوگا۔
پھر وہ صاحب مجھ سے بدک گئے ، وہ کہیں ہوتے اور میں پہونچ جاتا تو کسی حیلے سے اٹھ کر چل دیتے ۔ ان دنوں جماعت اسلامی کے افراد خفیہ طور پر اپنے پر پُرزے نکال رہے تھے، دیواری پرچوں میں اس نظریہ اور جماعت کے رنگ میں کبھی کبھی مضامین نظر آتے تھے۔
ایک دو طالب علم اور بھی اس خیال کے ملے ، ان سے خاصہ مباحثہ ہوا۔ ان طلبہ کے پیش نظر دار العلوم کے طلبہ کی اصلاح تھی ، اور اس کے لئے وہ ادبی ، بلکہ ناول کے طرز پر مضامین لکھتے اور دیواری پرچوں میں ان کی اشاعت کرتے ، غالباً ان کے نزدیک اصلاح کا مطلب یہ تھا دار العلوم کے ماحول میں علمی نظریات اور عملی روایات میں اسلاف کے فکر وعمل کی جو پابندی ہے ، یہ تنگ نظری ہے ، تقلید جامد ہے ، روشن خیالی کے منافی ہے ، پس اسے دور کرنا چاہئے ، قدیم بنیادوں کو ڈھادینا چاہئے ، اور ان کی جگہ پر نئی بنیاد اور اس پرنئی تعمیر جدید افکار ونظریات کی قائم کرنی چاہئے۔
مجھے یاد ہے ، سردی رخصت ہورہی تھی ، مگر رات ابھی بدستور لمبی ہی تھی ، دار جدید کی بالائی منزل کے ایک کشادہ کمرے میں رات کاایک بڑا حصہ اسی موضوع پر بحث ومباحثہ