غرض یہ کہ جماعت اسلامی کے لٹریچر سے بھی اور اس کے افراد سے بھی خاصی حد تک واقفیت ہوچکی تھی ، اور یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ متعدد اصحاب علم مودودی صاحب کی تحریروں سے متاثر ہوکر ان کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے تھے ، مگر جب ان سے براہ راست سابقہ پڑا، تو آہستہ آہستہ لوگ ان سے ٹوٹتے گئے۔
انھیں ٹوٹنے والوں میں ایک صاحب قلم وحید الدین خاں بھی تھے ، جس وقت میں احیاء العلوم میں تھا ، انھیں حضرت مولاناسیّد اسعد مدنی علیہ الرحمہ جمعیۃ علماء ہند میں لے آئے اوراخبار الجمعیۃ کا ہفتہ وارجمعہ ایڈیشن ان کے سپرد کیا ، اس میں ان کی البیلی اور فکر انگیز تحریریں چھپنے لگیں ، تو وہ حلقۂ دیوبند میں یکایک معروف ہوگئے ، میں جمعہ ایڈیشن بہت پابندی سے پڑھتا تھا۔
وہ جب جماعت اسلامی کے حلقہ سے باہر نکلے تو انھوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ہے ’’ تعبیر کی غلطی‘‘ میرا مطالعہ جب جماعت اسلامی کے لٹریچر سے آگے بڑھا ، تو مجھے تعبیر کی غلطی کی تلاش ہوئی ، مگر وہ کتاب مجھے مبارک پور میں ہاتھ نہ آسکی۔ میں دار العلوم میں پہونچاتو کتب خانے میں ا سے تلاش کیا ، وہ مل گئی ، اور میں بڑے انہماک اور غور سے اس کا مطالعہ کرنے لگا۔ جماعت اسلامی کے نظریات کے رد میں بہت کچھ پڑھ چکا تھا ، لیکن وحید الدین خاں نے جو کچھ لکھا تھا ، اس کا اسلوب وآہنگ جداگانہ تھا ۔ میں یہی کتاب پڑھ رہا تھا کہ ایک طالب علم بہت جامہ زیب ، خوبصورت ، گورا چٹا، پستہ قد ، چہرے پر چھوٹی سی داڑھی سلام کرکے بے تکلفی سے میرے پاس بیٹھ گیا ، اور پوچھنے لگا کہ کیا پڑھ رہے ہو؟ میں نے کہا ’’تعبیر کی غلطی‘‘
میں اس کی ہر ہر سطر چھ چھ مرتبہ پڑھ چکا ہوں ، وہ بولا
بہت خوب میں نے کہا
اتنا ہی نہیں ، میں نے اس کا جواب بھی لکھا ہے
بہت اچھا، پھر تو آپ وہ جواب فراہم کیجئے